پاکستان میں ہر سال 10 لاکھ مکانات کی ضرورت ہےایران نے اسرائیل پر ڈرون اور میزائیلوُں سے حملہ کر دیا ہےگوجرانوالہ- سیالکوٹ- وزیر آباد- گجرات اور لالہ موسی، بنا بنا اکنامک زونسیاچن کے محاز پر پاکستان کی فوجپاکستان کے شمالی علاقہ جاتمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےمعاشرےمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےاگر ہمّت ہو تو معزوری کوئی رکاوٹ نہیں ہوتیمیلہ 6 ستمبروہ لمحہ جب 7.4 شدت کے زلزلے نے تائیوان کو ہلا ڈالامہنگائی کی شرح ۲۰% پر آ گئی-اپنی صحت کا خیال رکھیں- سوشل میڈیا سے دور رہیںصدر ارگان کی پارٹی کو ترکی میں بلدیاتی انتخابات میں شکستافغان سرزمین دہشتگردوں کی محفوظ آماجگاہ ہے ؛ فنانشل ٹائمچولستان میں زمینوں کو آباد کرنے کا منصوبہسائنوٹیک سولر پرائیویٹ لمیٹڈ کی پاکستان میں سرمایہ کاریپیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 9 روپے 66 پیسے کا اضافہ –مائع پیٹرولیم گیس( ایل پی جی) کی فی کلو قیمت میں 6 روپے 45 پیسے کمی کردی گئیبھارت میں پانی کی شدید قلّت؛ موسم گرما میں حالات مزید خراب ھونگےغزہ میں پھنسے دس لاکھ سے زائد لوگ سمندر کا نمکین پانی پینے پر مجبورغزہغزہ میں پھنسے دس لاکھ سے زائد لوگ سمندر کا نمکین پانی پینے پر مجبورامریکی کی ایران کے بیلسٹک میزائل، جوہری اور دفاعی پروگراموں کو سپورٹ کرنے والے پروکیورمنٹ نیٹ ورکس پر نئی پابندیاں عائد کر دی

تعلیمی اڑان اور ھنر مندی


عتیق الرحمان
۶۰اور ۷۰ کی دھائیوں میں پیدا ھونے والوں کو یہ شرف حاصل ھے کہ وہ اس تعلمی نظام سے مستفید ھوئے جو نسل در نسل گیس پیپرز اور گائیڈ بک کی شکل ھم تک منتقل ھوا تھا۔ یہ نظام تعلیم صرف فقروں کو یاد کرنے تک محدود تھا اور آج بھی ھے۔ اس میں کوئی تحریک یا تحقیق کی کوئی گنجائش نھی تھی۔ انگریز نے دو سو سال برصغیر پاک و ھند پر حکومت کی اور تعلیم کو عام آدمی کی پہنچ سے بڑی خوبصورتی سے نکال کر انگلینڈ لے گیا۔ لہزا جس نے پڑھنا ھوتا تھا وہ انگلینڈ جاتایا ادھر برصغیر میں ھی کھیں اسٹیشن ماسٹریا زیادہ سے زیادہ کلکٹر افس میں کلرک بھرتی ھو جاتا۔ کیونکہ یھی وہ زمانہ تھا جب کلکٹر کے آفس کے علاوہ ھمارا ریلوے کا نظام بھی کچھ بہتر تھا۔
گائیڈ بک اور گیس پیپر سے تیاری کرنے والےطلبہ اور طالبات ایک اور فائنل گیس پیپر کا انتظار کرتے ھیں جو امتحان سے ایک رات پہلے آؤٹ ھوتا ھے۔ اورپھر آخری گیس پیپر میں دئیے گئے سوالات کی پرچیاں بناتے ہیں۔ آپ مانیں یا نہ مانیں ھمارا تعلیمی نظام ترقی کی اس منزل پر کھڑا ھے کہ میں نے انگلش کے پرچے میں نقل کرنے والوں میں اکثر کو cat اور dog کے بھی سپیلنگ پوچھتے دیکھا ھے۔ آج تک یہ پتا نھی چل سکا کہ یہ آخری گیس پیپر کہاں سے آؤٹ ھوتا ھے۔ شاید یہ سیکریسی ھی تعلیمی نظام کو سنھبالے ھوئے ھے، کیونکہ طلباء اور طالبات کو آخری دم تک پتا نھی چلنے دیتی کہ انہوں نے سیکھا کیا ھے۔اور مسقبل میں کرنا کیا ھے۔
ہمارے تعلیمی اداروں میں استاد جب پڑھانے کلاس میں آتا ھے تو یہ سمجھ رھا ھوتا ھے کہ شاید طلبہ یا طالبات اس سبق کو تیار کر کے آئے ھونگے اور طلبہ کا بھی استاد کے بارے میں یھی خیال ھوتا ھے کہ استاد گرامی تو اس موضوع کے ماھر ھونگے۔ اسی کشمکش میں پیریڈ اور پھر تعلیمی سال جوں کا توں ختم ھو جاتا ھے۔ اور پھر یہ سلسلہ اتنا دراز ھوتا ھے کہ گائیڈ بک پر ھی ختم ھو تاھے۔ گائیڈ بک تعلیمی نظام میں ایک جوگا ٹ کی طرح ھوتی ھے۔ ڈنگ ٹپاؤ بعد میں دیکھی جائے گی۔ جیسے جوگاٹ ٹوٹ جاتی ھے ایسے ھی گیس پیپر اکا نتیجہ بھی کم ھی خوشخبری کی شکل میں آتا ھے۔
شعبہ تعلیم کی تباھی ایک واحد مقصد ھے ھےجس میں پوری قوم بمع سیاسی اور غیر سیاسی اکابرین اور اساتذہ سب متفق پائے گئےہیں۔ نیچے سے اوپر یا اوپر سے نیچے، دائیں سے بائیں، یعنی پہلی جماعت سے لیکر پی ایچ ڈی تک ملک کے طول و عرض میں کہیں بھی دیکھ لیں آپ کی ھر طرف تباہی نظر آئے گی۔ آپ کسی حکومت کی کارکردگی ، وھ جمھوری ھو یا غیر جمھوری ، جائزہ لے لیں ، وھ تعلم کے میدان میں آپ کی توقعات پر پورا اتریں گے؛ یعنی تعلیم کے لئے بجٹ دو فیصد-
قیام پاکستان سے لیکر اج تک ھم نے پروان چڑھنے والی ھر نسل سے تعلیم کے معاملے میں یکساں رویھ اختیار کیا ھے۔ جو بچ کر نکل گئے وہ ان کی انفرادی محنت تھی یا اچھی قسمت۔ کیوں کہ پڑھانا کیا ھے اور کیسے پڑھانا ھے، ھمارا تعلیی نظام اس سے نابلد ھے۔ لہزا سوچنا کیا ھے اور کیسے سوچنا ھے ، ھمارے طلباءکو بھی اس کا علم نھی۔ ھم جھاں ہیں اور جیسے ھیں کی بنیاد پر اپنے وطن کو یکساں نقصان پہنچا رھے ھیں اور ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا رھے ھیں۔ایچ ای سی ، ٹیکسٹ اور تعلیمی بورڈوں میں باقاعدہ بدعنوانیوں میں ملوث افراد کے خلاف انکوائریاں ھو رھی ھیں اور پرچے کاٹے جا رھے ھیں اور تمام ملوث افراد لگ بھگ یکساں اور اعلی تعلیم یافتہ ہیں ۔ تعلم باقاعدہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کی طرح ایک تجارت بن چکی ھے ۔ معاشرے میں ایک بے ھنگم سا شور اور چیخ و پکا ر سنائی دے رھی ھے۔ شاید یہ اسی تعلیمی خلا اور علم سے تشنگی کا احتجاج ھے ۔
قدرت نے پاکستانی قوم کے ھنر مندوں کو سی پیک کی شکل میں ایک موقع دیا ھے وھ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کا لاتے ھوئے ان منصوبوں کو کامیاب بنانے کے لئے اداروں کی مدد کریں اور اپنے مستقبل کو محفوظ بنائیں۔ ھنر مند ھاتھ ہی اپنے ملک کے مستقبل کو سنھال سکتے ھیں ۔ سی پیک ترقی کی راہ پر گامزن ایک زندہ حقیقت ھے جو جلد صنعتی انقلاب کی شکل میں پاکستان کے آسمان پر روشن ستارہ بن کر ابھرے گی۔ لیکن ھنر مند افراد کی کمی پاکستان سمیت پوری دنیا میں محسوس کی جا رھی ھے- جس تیز سے مشینوں کے ذریعے کام انجام دینے کی کوشش کی جارھی ھے اس تیزی سے ھنر مند افراد کی تربیت نھی کی جارھی-

You might also like