‏چین میں سیلاب‏Ubermenschپونے دوپاکستان میں ہر سال 10 لاکھ مکانات کی ضرورت ہےایران نے اسرائیل پر ڈرون اور میزائیلوُں سے حملہ کر دیا ہےگوجرانوالہ- سیالکوٹ- وزیر آباد- گجرات اور لالہ موسی، بنا بنا اکنامک زونسیاچن کے محاز پر پاکستان کی فوجپاکستان کے شمالی علاقہ جاتمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےمعاشرےمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےاگر ہمّت ہو تو معزوری کوئی رکاوٹ نہیں ہوتیمیلہ 6 ستمبروہ لمحہ جب 7.4 شدت کے زلزلے نے تائیوان کو ہلا ڈالامہنگائی کی شرح ۲۰% پر آ گئی-اپنی صحت کا خیال رکھیں- سوشل میڈیا سے دور رہیںصدر ارگان کی پارٹی کو ترکی میں بلدیاتی انتخابات میں شکستافغان سرزمین دہشتگردوں کی محفوظ آماجگاہ ہے ؛ فنانشل ٹائمچولستان میں زمینوں کو آباد کرنے کا منصوبہسائنوٹیک سولر پرائیویٹ لمیٹڈ کی پاکستان میں سرمایہ کاریپیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 9 روپے 66 پیسے کا اضافہ –مائع پیٹرولیم گیس( ایل پی جی) کی فی کلو قیمت میں 6 روپے 45 پیسے کمی کردی گئی

میں اور دھوکہ – افسانہ نہیں حقیقت

عتیق الرحمان

اپنے آپ کو بھی دھوکہ دینے کا عجیب ہی لطف ہے- میں نے زندگی بھر میں کو چقمہ دیا ہے- کبھی کبھی تو مجھے یقین ہی نھی ہوتا کہ میں، میں کو چکمہ دے رہا ہوں- دراصل میں نے میں کو دھوکہ دینے کے فن میں سالہا سال محنت کی ہے- مجھے یاد ہے پہلی دفع جب میں نے میں کو چقما دیا تو پرائمری سکول میں تھا- آدھی چھٹی کی گھنٹی بجی تو میرا دوست رشید قریب آ کے کان میں کہنے لگا کہ چل نکلتے ہیں کہیں گھومنے چلتے ہیں- ان دنوں گھومنے پھرنے کے لئے ھمارے چھوٹے سے قصبے میں دو تین تالاب تھے اور ایک ویران سا ریلوے اسٹیشن ، جہاں چند لمحوں کے لئے صرف اس وقت ریل پیل ہوتی جب کوئی ٹرین آ کر رکتی- ریل پیل والے لمحے کو دیکھنے کے لئے، کئی کئی مہینے ہم ترس جاتے تھے- رشید نے جب دعوت دی تو پہلی بار میں نے میں کو چکمہ دیا کہ ابے کوکون سا پتا چلناہے، چلو نکلتے ہیں – سکول سے بھاگنے کا مزا پہلی بار محسوس کیا تھا- دو تین گھنٹے خوب تالاب میں ٹھیکریوں کے ساتھ لہریں بنائیں- گھر پہنچ کر جب میں نے ہر طرف امن اورسکون دیکھا تو اندازہ ہو گیا کہ میں اندازے لگانے میں ٹھیک ہوں – میں نے میں کیطرف بڑے فخر سے دیکھا- پھر تو مجھے پر لگ گئے، میں نے میں کو سمجھ ہی نھیں آنے دی اور اسے ہر جگہ چقما دینا میرا معمول بن گیا؛ خاص طور پرآئینہ دیکھتے ہوئے مجھے اسے دھوکہ دینے کا بڑا مزا آتا- سکول اور کالج میں تو میں حد ہی کر دیتا تھا -امتحان قریب آتےہی میں،میں کو بتانا شروع کردیتا کہ تمہیں تو سب کچھ آتا ہے- ہر امتحان کے بعد جب نتیجہ آتا تو میں کا منہ دیکھنے والا ہوتا تھا- لیکن میں نے کبھی بھی میری طرف نھیں دیکھا- یہ سلسلہ چلتا رہا- میں نے میں کو اس فن میں بہت ماہر کردیا تھا- میں کو یقین ھو چلا تھا کہ میں اعلی اور مختلف ہوں- میں جب ارد گرد یکھتا تو کوئی تعجب نھیں ہوتا تھا کہ میں کیا کررھا ہوں – سب یھی کر رھے تھے- تعلیم مکمل کر کے ( میرے حساب سےمیں مکمل علم سمیٹ چکا تھا اور اب مزید کیگنجائش نہیں تھی -ظاہر ہے یہ چکمہ بھی میں نے ہی میں کو دیا تھا) – جب افسر لگے تو میں کو ورغلانے کے لئے میں کے علاوہ بہت سارے ماتحت مل گئے- جیسے جیسے ترقی ہوتی گئی میں کودھوکہ دینا والا مجمع بڑھتا رہا- – میں نے میں کے دل میں جوبیج بویا تھا وہ اب ایک تنا آور درخت بن بن چکا تھا – یہ تونشئہ تھا-میں کی تو طلب بڑھتی جارھی تھی- اسے یہ سب اچھا لگتا تھا -میں کو میں نے لاثانی کردیا تھا- لیکن میں کواندازہ ہو چکا تھا کہ کوئی اس کے ساتھ ہاتھ کر گیا ہے- میری ھنسی نکل گئی جب میں نے سوچا کہ کوئی اس کے ساتھ دھوکہ کرگیا – میں نے پوری زندگی میں کو چکمہ دیا لیکن اسے بالکل اندازہ نھیں ہونے دیا کہ میں ہی اس کا مد مقابل ہوں – آہ کاش، میں بتا پاتا، لیکن میں سننے کو تیار ہی نھیں تھا- اج بھی یہ سطورپڑھتے ہوئے میں یھی سوچے گا کہ یہ کسی اور کے لئے لکھی گئی ہیں – یہ میں نے میں کے لئے لکھی ہیں-
ابھی اجکل میں ، میں کو کہہ رہا ہوں کہ ابھی میرا وقت نہیں آیا اور میں بھی تسلی سے آرام کر رہا ہےکہ ابھی تھوڑی، ابھی تو بہت وقت ہے- لیکن اب مجھے ، میں پر ترس آنا شروع ہو گیا ہے کہ اتنا بڑا فریب – سوچتا ہوں کیا میں چھوڑ دو میں کو- جب تک میں نھیں چھوڑوں گا دنیا نھیں چھوڑے گی میں کو – میں نے میں کے ساتھ دھوکہ کیا ہے، خواہ مخواہ دنیا کو الزام دینا مناسب نھیں- زندگی بھر میں نے میں کو چکمے دئے اور الزام دوسروں پر لگواتا رہا-