سیاسی بیان بازی اور عوام

عائشہ حق

موجودہ سیاسی کشمکش میں پچھلے ادوار کے مقابلے میں ایک بات منفرد اور اچھی ھے کہ اب سب سیاسی شخصیات سیاسی قد کاٹھ میں برابر ہیں ۔ نہ کوئی کنگ میکر ھے نہ ھی کنگ۔البتہ پی ٹی آئی ضرور خوش ھو گی کہ اس دفع ریٹائرڈ فوج خضرات کی بھی ان کو سپورٹ حاصل ھے ۔
لیکن narrative کسی کا بھی اورجنل نھی اور نہ ھی اسے دوسروں پر فوقیت حاصل ھے۔ سب سیاسی بیان بازی ھے۔ پاکستان جغرافیائی لحاظ سے خطے میں اھم ترین جگہ واقع ھے۔ ھماری سیاسی ،سماجی ، معاشی اور ملٹری سیکوڑٹی کو اس وجہ سے مستقل خطرات کا سامنا ھے۔ یہ حقیقت پاکستان اور مسلح افواج کے لئے بہت بڑا امتحان بھی ہے اور قوم اور فوج کے درمیان مضبوط رشتے کی ایک اھم وجہ بھی ھے۔
‎عوام اور خاص طور پر میں ویٹرنز سے مخاطب ھوں کہ آپ لوگ ایسے ھی ادھوری معلومات پر اپنے رائے بنا کر آپس میں لڑ رھے ہیں – ھر منصوبے میں ایک fall guy ھوتا ھے”۔
ھمارے سیاستدانوں نے فوج کو اپنی سیاست میں فال guy بنا رکھا ھے۔
سیاست اور صحافت باقاعدہ بٹی ھوئی ھے۔
پاکستان میں لفظ ” اسٹیبلشمنٹ "پر اگر پابندی لگ جائے تو بہت سارے صحافیوں کی صحافت ختم ھوجائے گی۔ پاکستانی صحافت اور تجزیہ نگاری فوج کے ذکر کے بغیر ادھوری لگتی ھے۔ کچھ لوگوں کی تو واقعی علمی استطاعت فوج پر تنقید سے آگے نھی بڑھ پائی۔
جب اٹھارویں صدی میں بر طانیہ میں صنعتی انقلاب آیا تو بر صغیر میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا راج تھا۔ یہ انقلاب مغربی قوموں کوترقی کے ساتھ ساتھ شعور بھی بخش گیا۔ ان کی اشرافیہ نے ایسے ادارے بنانے کی روایت ڈالی جو عوامی فوائد کو ملحوظ خاطر رکھتے ( inclusive )اور یہ روائت آج بھی قائم ھے۔ ھم اس نعمت سے محروم رھے۔ نہ تو صنعتی ترقی مل سکی اور نہ ھی جمھوری روایات۔ شخصی اور جماعتی اقدار کو مضبوط کرنے کی روائت نے ادھر سے ھی جنم لیا ، جو اج تک قائم ھے۔ extractive ادارے بنانے کی روائت عام ھوئی۔ ایسے ادارے جن کے فوائد سے عام آدمی مستفید نھی ھو سکتا تھا۔ رھی سہی کسر ائی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے پوری کر دی۔
معیشت تو برے طریقے ناکام ھوئی لیکن معاشرہ انتہائی درجے تقسیم ھوا
معاشرے میں عدم برداشت اپنی انتہا کو پہنچ چکی ھے- معاشرے میں تقسیم، سیاسی لحاظ سے الیکشن جیتنے کا ایک نیا طریقہ ھے – جس میں ایک خاص  علاقے میں اپنی ووٹ بینک کو مضوط کر کے سوشل میڈیا کی مدد تقویت پہنچائی جاتی ھے۔ یہ نسلی بنیاروں پر اپنے پیرو کاروں کو رام کرنے کی کوشش ھے
جھوٹ، پرا پیگنڈا اور غیر اخلاقی سیاست کو منظم طریقے سے پھیلا یا جا رھا ھے- ایک وقت تھا لوگ اپنے سیاسی رہنمائوں کے اعلی کردار اور ذوق کے لیے جمع ہوتے تھے تاہم آج کل محض اس لیے جلسوں میں کھچے چلے آتے ہیں کہ ان کے لیڈر مخالفین پر آوازے کسنے کے ساتھ ساتھ ان کے خلاف غیراخلاقی زبان استعمال کرتے ہیں۔ لیڈروں کی شعلہ بیانیاں مشتعل حاضرین کے دل و دماغ میں آگ کو مزید بھڑکا رہی ہیں۔
دودھ کا دھلا تو کوئی نھیں لیکن اس طرح کی شتر بے مہار سیاست پاکستان میں پہلے دیکھنے میں نھی آئی
ھم متحد رہ کر ھی محفوظ رہ سکتے ہیں۔مثبت روے اور تعمیری سیاست ھی ترقی کا راستہ ھے- جب بات کرو پاکستان کی تو اسے اپنا سمجھو،پرایا نھیں- کیونکہ یہ واقعی تمھارا ھے۔ پرائیا کوئی سیاسی نظریہ ھو سکتا ھے ، پاکستان نھیں ۔ جب بات اپنے کی ھو گی تو اپنائیت سے ھو گی۔ ” اوھو یہ کیا ھوا” اور ” یہ تم نے خراب کیا ھے” ،دونوں میں بہت فرق ھے۔ اور یہ فرق ھی دراصل مسئلہ ھے۔ ھمیں ریاست اور سیاست میں فرق سمجھنا چاھیے