میسنے 

ہمارے ہاں کے سیٹھوں اور دنیا بھر کے سیٹھوں میں ایک واضع فرق ہے- ہمارے سیٹھ میسنے ہیں- پنجابی میں تیز  طرار مگر خاموش دکھائی دینے والے کو میسنا کہتے ہیں- یہ سائیڈ پر بنچ لگا کر بیٹھے ہیں ، تماشا کروا بھی رھے ہیں اور دیکھ بھی رھے ہیں- دنیا بھر میں سسیٹھ  اور صنعت کار ، غیر منصفانہ تقسیم کی سب سے بڑی وجہ سمجھے جاتے ہیں لیکن وہاں کے سیٹھ کم از کم ٹیکس ضرور ادا کرتے ہیں- 

لیکن ہمارے ہاں  سب سے زیادہ وسائل کے مالک یہ لوگ کسی احتسابی گنتی میں ہی شمار نہیں کئے جاتے- 

 دنیا بھر میں اب یہ ایک نیا چلن چل نکلا ہے کہ بے انتہا دولت  کے مالک یہ لوگ  ریاست کے اندر ریاست ہیں – اڈانی، امبانی، ایلن مسک، روپر ٹ مڈرو وغیرہ-  یہ دنیا کو گھڑی کی سوئیوں کے مخالف رخ چلا رہے ہیں-

حکومت کے معاملے میں جب بھی بحث ہوتی ہے  تو ہم سب  اسی نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ حکومت نا اھل ہے- کبھی سیٹھ کا ذکر نہیں آیا – حالانکہ حکومتیں ان سیٹھوں کے رحم و کرم پر ہوتی ہیں-

محاورہ ہے کہ انصاف اندھا ہے  اور  سیاست کے سینے میں  دل نہیں ہوتا – تو میسنے سیٹھوں  نے اس کا نتیجہ یہ اخذ کیا کہ ریاست کی اس تکنیکی معذوری کا   خمیازہ قوم بھگتے گی – بھائی اندھے پن کو دور کرنے کے لئے تحقیقی اداروں کو مضبوط کرو اور جن کے پاس دل نہیں ان کو دماغ سے کام لینا سکھاؤ- ابھی یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ ایک اندھا ہے دوسرے کے پاس دل نہیں تو ان دونوں کو نئی فراری  لے دو کیونکہ یہ لاڈلے ہیں-

پچھلے دنوں ایک دوست نے سوشل میڈیا پر پوسٹ لگائی کہ ” ہم سب انفرادی طورپر کرپٹ رھتے ہوئے معاشرے کو ایماندار دیکھنا چاھتے ہیں”- یہی سب سے بڑا المیہ ہے کہ ہم مضبوط حصار میں رھ کر چوری کرنا چاہتے ہیں-

 دنیا اور ملکوں پر حکمرانی کرنے والوں کو لگتا ہے  کاربن گیس  کا اخراج  ، انسانی ذھن کے اندر سمائے گند  سے زیادہ خطرناک  ہے -حالانکہ دونوں یکساں نقصان پہنچا رھے ہیں – 

 ویسے تو ماحولیاتی  آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے نقصانات  پر قابو پانے کے لئے بھی کوئی خاص اقدامات نہیں ہو رھے- سب کچھ جوں کا توں چل رھا ہے- 

دنیا میں امن قا ئم کرنے والے تمام عالمی طاقتیں اور ادارے ،  افراتفری پھیلانے پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں- 

 ذھنی آلودگی کے تدراک کی بجائے اسے  بھی مزید تقویت دی جا رھی- 

 –