پانی کی قلّت، عالمی مسئلہ
موسمیاتی تبدیلیاں زمین پر بسنے والے جانداروں کے لئے بہت بڑا خطرہ بن کر ابھر رہی ہیں
دو دن قبل یونان کے سب سے مقبول سیاحتی مقام "ولو” پر 100 ٹن سے بھی زیادہ مردہ مچھلیاں پائی گئیں- مچھلیوں کو جب پانی سے نکالا گیا تو بدبو پورے علاقے میں پھیل گئی- یہ ایک اور اشارہ ہے کہ زمین پر بسنے والے جاندار شدید خطرات کی زد میں ہیں – ان مردہ مچھلیوں کی وجہ، یونان میں شدّت سے آنے والے سیلاب ہیں-
اس سال جون 2024 میں چھپنے والی رپورٹ کے مطابق سال کے پہلے چھ ماہ میں 41 ارب ڈالر کا نقصان ریکارڈ کیا گیا- متحدہ عرب امارات، برازیل، میانمار، مغربی افریقہ، جنوب اور مغربی ایشیائی ممالک ان نقصانات سے متاثرہ ملک ہیں- امریکی ریاست ہوائی میں پورا جزیرہ آگ کی لپیٹ میں آ گیا- 2022 میں پاکستان میں سیلاب نے تباھی مچا دی-
امریکہ میں 26 ملین افراد کو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مختلف قسم کے خطرات درپیش ہیں-
جون 2024 میں دنیا کی آبادی کے 5 ارب افراد مختلف ممالک میں سخت گرمی کی شدّت سے متاثر ھوئے-
موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بڑھتا ہوا درجہ حرارت سب سے بڑا خطرہ ہے-درجہ حرارت کے بڑھنے سے سیلاب، جنگلات میں آگ، خشک سالی خوراک اور پانی کی قلّت کے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں –
پانی کا بحران ایک اہم عالمی مسئلہ بن کر ابھر رہا ہے-
بھارت جو دنیا کا سب زیادہ آبادی والا ملک ہے اس کے اہم آبی ذخائر پانچ برسوں کی اپنی کم ترین سطح پرپہنچ گئے ہیں– خدشہ ہے کہ آنے والے موسم گرما میں پینے کے پانی اور بجلی کی دستیابی میں مشکلات کااضافہ ہو گا–
بنگلورو جسے ، سلیکون ویلی بھی کہا جاتا ھے وہاں پانی گنجائش سے 16 فیصد کم ہو گیا ہے- سرکاری اعداد وشمار کے مطابق بھارت میں وفاقی حکومت کے زیر نگرانی 150 آبی ذخائر، جو پینے اور آبپاشی کے لیے پانیفراہم کرتے ہیں اور ملک میں پن بجلی کی فراہمی کا ایک اہم ذریعہ بھی ہیں۔ ان میں پانی ذخیرہ کرنے کیجتنی گنجائش ہے اس کا صرف 40 فیصد پانی رہ گیا ہے–
پاکستان میں کراچی پانی کے شدید بحران کا شکار ہے– لاہور ،بھی راوی اور ستلج کے دریاؤں میں پانی کی کمیہونے سے مشکلات کا شکار ہے- راولپنڈی پوٹھوہار میں ہونے کی وجہ سے پہلے ہی پانی کے بحران کا شکارہے–
دنیا بھر میں تقریباً 2 ارب لوگ ایسے ممالک میں رہتے ہیں جو پانی کی قلّت کا شکار ہیں–اس قلت کی بڑیوجہ آبادی میں اضافہ اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے خشک سالی ہے–آب و ہوا کی تبدیلی سے پانی کیدستیابی خراب ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے، سب صحارا افریقہ اور جنوبی ایشیا جیسے خطے خاص طور پرخشک سالی اور بارش کے بے ترتیب نمونوں کا شکار ہیں۔
– 2020 تک، تقریباً 771 ملین افراد پینے کے پانی تک رسائی سے محروم تھے– یعنی دنیا بھر میں تقریباً10 میں سے 1 بندہ اس دقّت کا شکار ہے–
ایک اندازے کے مطابق زراعت کے لیے استعمال ہونے والا تقریباً 30-50% پانی غیر موثر طریقوںکی وجہ سے ضائع ہو جاتا ہے، جس سے پانی کے وسائل پر اضافی دباؤ پڑتا
عالمی سطح پر پیدا ہونے والے تقریباً 80% گندے پانی کو مناسب ٹریٹمنٹ کے بغیر ماحول میں خارج کردیا جاتا ہے، جس سے پانی کے معیار کے شدید مسائل اور صحت کو خطرات لاحق ہوتے ہیں۔–
زرعی پیداوار میں کمی، صحت کے اخراجات میں اضافہ، اور محنت کی کم پیداواری صلاحیت کی وجہ سے پانیکے بحران سے معیشتوں کو 2050 تک سالانہ 600 بلین ڈالر تک کا نقصان ہو سکتا ہے۔ مستقبل کےلیے پانی کے پائیدار وسائل کو یقینی بنانے کے لیے مربوط انتظام، تحفظ ، اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے پانیکے بحران سے نمٹا جا سکتا ہے-