ایک ( 1)اور صفر  ( 0)کی لڑائی 

ہر زمانے میں علم ( Episteme) کی اپنی نوعیت / پہچان ہوتی ہے اور وہی اس زمانے کی ترقی و ترویج طے کرتی ہے- علم کا براہ راست تعلق اس معاشرے کی ادبی قابلیت اور حجم سے ہوتا ہے- موجودہ  زمانے کی episteme جھوٹ اور نفرت سے پراگندہ ہے- 

دنیا اس وقت   موسمیاتی تبدیلیاں ، چپ وار اور انفارمیشن وار کے دور سے گزر رہی ھے-

چپ وار chip war نئی جیو پالیٹیکس کا مرکزی نقطہ ہے  – یہ جنگ ، چین اور امریکہ کے درمیان سیمی کنڈکٹر کی development اور supremacy کے اوپر ہے- جدید دور کی ہر مشین اسی semiconductor کی پیداوار ہے- ہم کہ سکتے ہیں یہ دنیا دو ھندسوں 1&0 کی لڑائی ہے یعنی کمپیوٹنگ سسٹم کی جنگ ہے-

موسمیاتی تبدیلیاں جو کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کا نتیجہ ہے اور نیا انفارمیشن رجیم جو کہ semiconductor کی ہی ایکٹنشن ہے، اس نے دنیا کے معاشی اور معاشرتی کلچر کویکسر  تبدیل کر دیا ہے-  نتیجتا سیاسی ادارے ان تبدیلیوں کی مینجمنٹ میں مسلسل مشکلات کا شکار ہیں- پنسلین کے بعد انٹر نیٹ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ایجاد میں –  پنسلین نے دنیا کو صحت بخشی – انٹر نیٹ اور موبائل نے پوری دنیا کے رہن سہن کو تبدیل کر دیا – 

سوشل میڈیا انٹر نیٹ اور موبائل کا بائی پراڈکٹ ہے-

کلک بیٹ ( clickbait) نیٹ فلیکس کی  فیک آئی ڈی کے تباہ کن اثرات کے بارے میں ایک ویب سیریزہےانٹر نیٹ پر کسی دوسرے کی تصویر لگانے کر مستیاں اور شرارت کرنے کے بھیانک انجام کی کہانیہے جو ایک کردار کے اغواہ کے گرد گھومتی ہے جو  فیک آئی ڈی کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے– نہ صرف جانسے جاتا ہے بلکہ اس کا پوراخاندان اس بھیانک سکینڈل کے سبب بدنام  ہو جاتا ہے جو قتل ہو جانےوالے نے کیا ہی نہیں ہوتا– اس طرح کی لاکھوں کہانیاں انٹر نیٹ کی بدولت ہمارے گردو نواح میں جنملے چکی ہیں–  

ترکیہ، روس، یو اے ای، بنگلہ دیش  اور دوسرے بہت سے ممالک نے سوشل میڈیا کے بہت سے پلیٹ فارمز پر پابندی لگا دی ھے- 

انٹرنیٹ ، موبائل اور دوسری  انفارمیشن ٹیکنالوجی نے ایک نئی دنیا کو جنم دیا ھے- 

انسانوں کی  سوچ  کو مارکیٹ میں بیچا جا رھا ہے-  جیسے جیسے ڈیٹا ، آرٹیفیشیل انٹیلیجنس کی مدد سے تبدیل ہو کر مختلف شکلیں لیتا جا رھا ویسے ویسے تجارت اور مادی ترقی بڑھتی جا رہی ہے جبکہ انسانی احساس جامد ہو کر اس تغیراتی تبدیلی کو دیکھ رہا ہے- انسانی سوچ کو مادی ترقی کی طرف موڑ دیا گیا ہے – ترقی کی انتہاء اور احساس کے زوال کا یہ فرق ، انسانیت کا سب سے بڑا المیہ بن چُکا ہے-  

جیو پالیٹیکس، سیاست، جیو اکنامکس، مارکیٹ اکانومی، میڈیا، سوشل میڈیا، میڈیکل سائنس یہ سب تجارتی محاذ بن چکے ہیں-

 کمپیوٹر اور موبائل کی دنیا لالچ اور عدم تحفظ کو پروان چڑھا رہی ھےاور یہ سوچ  معاشرے میں افراتفری کا سبب ہے – اکیسویں صدی میں سب سے پہلے ہم سے اردو ادب روٹھا- برصغیر پاک وہند کی تقسیم سے قبل شاعری، نثر ، افسانہ،  اردو ادب کی دوسری اصناف کا معاشرے کی اعلی اقدار اور روایات میں کلیدی کردار تھا- اب یہ ذمہ داری  ٹویٹر نبھا رھا ہے-  مولوی عبد الحق، محمد حسین آزاد،مرزا فرحت اللہ بیگ ،مشتاق یوسفی، امجد اسلام امجد، قاسمی، منٹو، جالب، فیض، جون ایلیا اب پیدا نہیں ہو رھے- اب انفلوئنسرز ہماری طبیعت ٹھیک کر رھے ہیں-انگریز نے موبائل اور انٹر نیٹ کے دور میں بھی کتاب اور انگریزی ادب کو ہاتھ سے نہیں گرنے دیا ، اسی لئے اپنے پاؤں پر بھی کھڑا ہے- یورپ میں ناول آج بھی بہت مقبول ہے- مغربی معاشروں نے شخصی اقدار کی ترویج کے لئے بہت لکھا جاتا ہے اور بکتا بھی ھے-  بہت بڑے بڑے پبلشر  اس کام سے جڑے ہیں- اربوں ڈالر کی صنعت ہے- تصانیف ھزاروں نہیں لاکھوں اور کروڑوں کی تعداد میں چھپتی ہیں-

جیسے جیسے ہمارے ہاں سے  اردو ادب غائب ہوتا گیا، اسی تناسب سے ہمارا معاشرہ زوال کا شکار ہوتا گیا- 

مغرب میں صحافی، پروفیسر، ڈاکٹر ، ریٹائرڈ فوجی اور باقی سب بھی اپنی علمی قابلیت کے مطابق پیشہ وارانہ اور ادبی میدان میں حصہ ضرور ڈالتے ہیں- ہمارے ہاں نہ لکھنے کا رواج ہے نہ پڑھنے کا- ہم ٹیکسٹ میسج بھی پورا نہیں پڑھتے- سوشل میڈیا کی تربیت کے لئے درجنوں نہیں سینکڑوں کتابیں لکھی جا رھی ہیں- ہمارے ہاں ٹویٹر ٹرال فارمز سب کچھ برباد کرنے پر تُلے ہیں- 

۰-۰-۰- 

ڈاکٹر عتیق الرحمان