غربت، استحصال کا نتیجہ ہے
غربت، معاشی پالیسیوں سے زیادہ سماجی روّیوں اور قانون سازی سے قابو کی جا سکتی ہے- یہ حساب کے کلیے سے زیادہ معاشرتی مسئلہ ہے-
"مزدور ” ، ” مکینک” ، "سپروائزر ” ، "سب انجنیئر ” ، "انجنیئر ” ، ” ڈرائیور” یہ سب الفاظ شناخت کے لئے ہیں – out put یا نتیجے کے لحاظ سے کسی بھی پراجیکٹ چاہے وہ بلڈنگ کی تعمیر ہو، فیکٹری، سائنس لیباریٹری، ہسپتال، سکول یا کوئی اور جگہ ،کام کی تکمیل کے لئے ساری hierarchy ضروری ہے- اجرت کا تعین اوقات کار، ہنر اور محنت سے طے ہوتا ہے – صرف ہنر ، اجرت کے تعین کے لئے کافی نہیں ورنہ یہ استحصال ہے-
اینٹ کسی بھی بلڈنگ کی تعمیر کے لئے بنیادی جز ہے- اینٹ بنانے والے مفت کام کر رھے ہیں اور مکان کا نقشہ بنانے والے لاکھوں روپیہ وصول کر رھے ہیں-
غربت ، 70% کیسز میں استحصال کا نتیجہ ہے- 30% غربت کے کیسز حالات کی پیداوار ہیں- غربت، مدد کرنے سے نہیں، غیر استحصالی پالیسیاں اپنانے سے ختم ہو گی- ہنر مند اور غیر ہنر مند افراد کو ان کی اصل مزدوری نہ ملنے کی وجہ سے، غیر مساوی معاشرہ پرورش پاتا ہے-
جو سخت، خطرناک، ناپسندیدہ اور محنت طلب کام ہو اس کی اجرت اتنی ہی زیادہ ہونی چاہیے- ہمارے ہاں الٹا رواج ہے-
دنیا میں imperialism, colonialism ختم ہو گیا لیکن شناخت آج بھی وہی چل رہی ہے- ترقی یافتہ، ترقی پزیر، گلوبل ساؤتھ ( تیسری دنیا) کے ممالک – یہی گلوبل ڈس آرڈر ہے-
دنیا میں نہ اناج کم ہے نہ پانی- صرف تقسیم میں ہیرہ پھری ہے- جہاں کھانا دیگوں میں پکتا ہو، پینے کا پانی تک بوتلوں میں بھر کر میزوں پر رکھا ہو، بوفے میں کم از کم دس پندرہ ڈشیں پکتی ہوں، شہروں، قصبوں ، دیہاتوں میں چپے چپے پر شادی ہال ہوں وہاں یقیننا خوراک کی کمی نہیں ، غیر منصفانہ تقسیم یا سلیقے کی کمی ہے-
لفظ "غریب” غیر مناسب اور انسانیت کی توہین ہے- غریب کا مطلب ” جس کے پاس پیسے یا وسائل کم ہیں ” – دراصل یہ محروم طبقہ معاشرے کا "مظلوم طبقہ” ہے- 50 ڈگری سنٹی گریڈ میں 10 گھنٹے لوھا کوٹنے والے کے گھر میں روٹی نہیں تو قصور کس کا ہے ؟ وہ غریب نہیں "مظلوم ” ہے، ظلم کیا جا رہا ہے اس پر-
جب اینٹ، سریا اور گھر بنانے والے کو صحیح اجرت ملے گی تو محنت کشوں کے گھر میں روٹی بھی پوری ھو گی- کیپیٹلزم یا مارکیٹ اکانومی میں اجرت بھی منافع کے تناسب سے طے ہونی چاہیے- یہ فرق ہے ہم اور مغرب میں- وہاں کوئی بھی کام کریں سب کی اجرت گھنٹوں کے حساب سے ہوتی ہے- اجرت بڑے گی تو اناج کی تقسیم بہتر ہو گی-
poverty reduction کا لفظ ختم کریں- prosperity management کا لفظ استعمال کریں- ھیومن رائیٹس میں روٹی، کپڑا اور چھت کے الفاظ استعمال کریں-
پاکستان کا 30% سے 40% ہیومن ریسورس سستی مزدوری، گھر کے کام کاج، ڈرائیور اور مزارع ہیں- یہی طبقہ روٹی اور پانی کے لئے ترس رہا ھے- سستی مزدوری کیوں؟ مزدوری حکومت نہیں کام کروانے والا دیتا ہے- ان سے مزدوری تو پوری لے کے دو- سیٹھ نہ ٹیکس دے رہا ھے نہ مزدوری- لیکن ذخیرہ اندوزی اور قیمتوں کا تعین اپنی مرضی سے کر رھا ہے-
کام کرنے والا ہنر مند commodity ہے- اور commodity کی قیمت inflation کے حساب سے اوپر نیچے جانی چاہیے- باقی ہر چیز مہنگی ھے سوائے مزدوری کے- مارکیٹ سپلائی اور ڈیمانڈ کے اصول پر کام کرتی ہے-
معیشیت کی ٹھیک کرنے کے لئے دو سطروں کا فارمولا ہے ” اپنی، اپنے عزیزو اکارب اور یاروں دوستوں کے لالچ کو درگزر کر کے کوئی بھی منصوبہ بنا کر اس پر عمل درآمد کروا دیں تو معیشیت سنبھل جائے گی”-