تن بونجا "3.52 میٹر "

ارشد ندیم نے اپنے قریب ترین حریف سے 3.52 میٹر  آگے جیولن پھینک کر اولمپکس میں کامیابی کے مارجن کی نئی تاریح کی- اس” تن بونجا” نے 24 کروڑ پاکستانیوں کے دل خوشی  سے سرشار کر دیئے – 

ارشد ندیم کل ایک نام تھا، آج ایک پہچان ہے، ایک برانڈ ہے- ارشد ندیم کی جیت نے ہمارے دلوں میں کہیں دور چھپی خوشی کی تمنا کو جگایا ہے-  ہم ، تیرا تیرا تیرا اور میرا میرا میرا  کی لڑائی میں ایسے الجھے ہیں کہ ، فتح اور خوشی کے الفاظ سے شناسائی ہی بھول بیٹھے  ہیں-  106.3 سینٹی میٹر  لمبی، 800 گرام  بھاری ، لکڑی اور دھات سے بنی جیولن کی 92.97 میٹر  کی ارشد ندیم کی ایک تھرو  نے وقت کے دھارے کا رخ بدل دیا – پوری قوم میں ایک نئی روح پھونک دی- ارشد ندیم کا کام ادھر تک ہی تھا، آگے ہمیں لے کر چلنا ہے- ابھی ارشد ندیم اور جیتے گا، انشاللہ بہت جیتے گا لیکن شاید یہ لمحے واپس نہ آئیں- ان لمحوں کو سنبھالنے کا فرض ہمارے مضبوط کندھوں پر آن پڑا ہے- ارشد ندیم نے اپنے قریب ترین حریف سے 3.52 میٹر  دور جیولن پھینک کر کامیابی کے مارجن کی نئی تاریح رقم کی- 

یہ trigger mechanism ہے- مناسب وقت، اور ٹھیک  جگہ پر ٹھیک ٹھاک  ٹکور – یہ صلاحیت ، بھرپور تیاری اور جیتنے کی امنگ سے ملتی ھے- ارشد ندیم نے اسی کلیے کو آزما کر کامیابی حاصل کی- 92.97 میٹر کی پہلی تھرو سے ارشد ندیم نے سونے کا تمغہ جیتا اور پیرس اولمپکس کی اپنی آخری 91.79 میٹر تھرو سے اپنے حریفوں کو بتا یا کہ اگلے ٹورنامنٹس میں بھی کسی غلط فہمی میں نہ رھنا- 

 امریکہ اور چین نے اس تیاری اور امنگ سے بالترتیب 38, 37 سونے کے تمغے جیتے ہیں- تو ہم یہ نتیجہ اخذ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ اگر ہم باقاعدہ ” تن بونجا” کو اپنی عادت بنا سکتے ہیں – اپنے کھلاڑیوں کو تربیت دیں تو ہم درجنوں ارشد ندیم پیدا کر سکتے ہیں- 

ارشد ندیم کی اس پیدا کردہ جیت اور خوشی کی تحریک کو چلنے دیں- یہ آب حیات ہے-یہی راستہ کامیابی کا ہے، راحت کا ہے اور ہمارے متحد کرنے کا بھی-

-۰-۰-۰-۰-۰-۰

ڈاکٹر عتیق الرحمان 

asdigitalsolutions.org