پاکستان میں ہر سال 10 لاکھ مکانات کی ضرورت ہےایران نے اسرائیل پر ڈرون اور میزائیلوُں سے حملہ کر دیا ہےگوجرانوالہ- سیالکوٹ- وزیر آباد- گجرات اور لالہ موسی، بنا بنا اکنامک زونسیاچن کے محاز پر پاکستان کی فوجپاکستان کے شمالی علاقہ جاتمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےمعاشرےمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےاگر ہمّت ہو تو معزوری کوئی رکاوٹ نہیں ہوتیمیلہ 6 ستمبروہ لمحہ جب 7.4 شدت کے زلزلے نے تائیوان کو ہلا ڈالامہنگائی کی شرح ۲۰% پر آ گئی-اپنی صحت کا خیال رکھیں- سوشل میڈیا سے دور رہیںصدر ارگان کی پارٹی کو ترکی میں بلدیاتی انتخابات میں شکستافغان سرزمین دہشتگردوں کی محفوظ آماجگاہ ہے ؛ فنانشل ٹائمچولستان میں زمینوں کو آباد کرنے کا منصوبہسائنوٹیک سولر پرائیویٹ لمیٹڈ کی پاکستان میں سرمایہ کاریپیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 9 روپے 66 پیسے کا اضافہ –مائع پیٹرولیم گیس( ایل پی جی) کی فی کلو قیمت میں 6 روپے 45 پیسے کمی کردی گئیبھارت میں پانی کی شدید قلّت؛ موسم گرما میں حالات مزید خراب ھونگےغزہ میں پھنسے دس لاکھ سے زائد لوگ سمندر کا نمکین پانی پینے پر مجبورغزہغزہ میں پھنسے دس لاکھ سے زائد لوگ سمندر کا نمکین پانی پینے پر مجبورامریکی کی ایران کے بیلسٹک میزائل، جوہری اور دفاعی پروگراموں کو سپورٹ کرنے والے پروکیورمنٹ نیٹ ورکس پر نئی پابندیاں عائد کر دی

ہفتہ ‘ 13جمادی الاول 1443ھ، &18 دسمبر 2021ء

وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ اور محصولات شوکت ترین نے کہا ہے کہ پاکستان کی معیشت کی بہتری کیلئے ادویات ساز اداروں کا کردار بہت اہم ہے۔ 

بالآخر شوکت ترین صاحب نے بیمار معیشت کی صحیح تشخیص کر ہی ڈالی کہ اس نزاع کے عالم میں معیشت کو دعا کے ساتھ ساتھ  دوا کی بھی ضرورت ہے جس کیلئے انہوں نے دوا ساز اداروں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنا اہم کردار ادا کریں۔  اب دیکھتے ہیں کہ یہ دوا ساز ادارے کونسی دوا ایجاد کرتے ہیں جس سے ہماری معیشت اپنے پیروں پر کھڑی ہونے کے قابل ہو سکے۔ سرکاری معالجین تو اب تک معیشت کے علاج معالجہ کیلئے آئی ایم ایف سے ہی رجوع کئے ہوئے ہیں جس کی کڑی شرائط پرقرض کی بھاری رقم منگواتے رہتے ہیں جبکہ معیشت کی حالت روزبروز بگڑتی ہی گئی اور نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ ’مرض بڑھتا ہی گیا‘ جوں جوں دواکی‘۔ ہمارے ماہرین بیمار معیشت کا علاج بیرون ملک تلاش کر رہے ہیں جبکہ اس کا بہترین علاج ملک کے اندر ہی موجود ہے‘ بس پالیسی ترتیب دینے کیلئے ماہرین کی ضرورت ہے جو سر جوڑ کر بیٹھیں اور اپنی حکمت و تدبر سے اس بیمار معیشت کا کوئی مؤثر علاج دریافت کریں جو اسے اپنے پیروں پر کھڑا کر سکے۔ہماری نظر میں ترین صاحب اچھے طبیب  ہوسکتے ہیں‘ انہیں دوا ساز اداروں کا سہارا لینے کے بجائے اپنی حکمت پر بھروسہ کرنا چاہیے اور اپنے کرتا دھرتائوں کو باور کرانا چاہیے کہ بیرونی امداد نے ہماری معیشت کا کیس خراب کرکے اسے نزاع کے عالم میں پہنچا دیا ہے‘ اس لئے اس کا علاج ملک میں ہی کرنا بہتر ہے۔ 

سرکار کے انوکھے کام۔ سردی کے بڑھتے ہی کھپت بھی بڑھ گئی‘ کھانا پکانا مشکل رات کو گیس سپلائی بند کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔ دوسری خبر کے مطابق دھوئیں کی وجہ سے سموگ میں اضافہ ہوتا ہے‘ اس لئے باربی کیو پر پابندی  لگائی جائے‘ ڈائریکٹر پی ڈی ایم اے کی تجویز۔ 

واقعی یہ تو اپنی نوعیت کا انوکھا ہی فیصلہ نظر آتا ہے‘ ایک چیز جو پہلے ہی عوام کیلئے سرکار نے  بند کی ہوئی ہے‘ جس پر عوام سراپا احتجاج  بھی ہیں‘ سرکار نے اسے مزید سکیڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس پر حیر ت کم ہنسی زیادہ آرہی ہے۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ یہ کونسے مشیر ہیں جو اپنی ناقص حکمت کو چاندی کے ورق لگا کر حکومت کو ایسے مشورے دیتے ہیں۔ چلیں سردیوں میں کھپت بڑھ سکتی ہے لیکن موسم گرما میں تو گیس صرف کھانا پکانے کیلئے ہی استعمال ہوتی ہے لیکن سرکار کی طرف سے موسم گرما میں بھی اسکی سپلائی بند رہتی ہے۔ عوام ہوٹلوں کا رخ کرتے ہیں جہاں انہیں مہنگے داموں کھانا خریدنا پڑتا ہے۔ عوام بے چارے دونوں طرف سے ہی پستے نظر آتے ہیں۔ 

افسوس تو اس بات کا ہے کہ گزشتہ دنوں کابینہ کے اجلاس میں وزیر اطلاعات نے اپنی بریفنگ کے دوران عوام کو باور کرایا کہ گیس ختم ہونیوالی ہے‘ سستی خریدنے والے عادتیں بدلیں۔ جب وزراء ہی ایسے بیانات دیکر قوم میں مایوسی پھیلانے کا سبب بنیں گے تو قوم ان نمائندوں پر کیسے بھروسہ کریگی کہ وہ انہیں مسائل کے دلدل سے نکالیں گے۔ اب سموگ میں اضافہ کی وجہ سے باربی کیو پر پابندی کی تجویز دی جا رہی ہے۔ ملک میں پہلے ہی بے روزگاری کا عفریت موجود ہے‘ جو  لوگ بے چارے چھوٹے موٹے باربی کیو کا سٹال لگا کر اپنے بچوں کیلئے روزی کما رہے ہیں‘ ان پر پابندی عائد کرکے انکے مسائل میں اضافہ کرنے والی بات ہے۔ نائن الیون کے بعد  امریکہ نے دہشت گردی کیخلاف جنگ شروع کی توپاکستان کو دھمکی دی تھی کہ اگر تم نے اس جنگ میں  ہمارا ساتھ نہ دیا تو تمہیں پتھر کے زمانے میں پہنچا دیں گے۔ خیر سے وہ کام امریکہ تو نہ کر سکا‘ البتہ ہمارے اپنے نمائندے ہی ہمیں پتھر کے زمانے کی طرف دھکیلتے نظر آرہے ہیں۔  خدا خیر کرے۔ 

کابل میں خاتون ٹیچر جوتے پالش کرنے پر مجبورہوگئی۔ 

روٹی تو کسی نہ کسی طور کمانی پڑتی ہے تاکہ پیٹ کی آگ کو بجھایا جا سکے۔ جب وقت اچھا تھا تو یہ خاتون سکول میں ٹیچر تھی۔ معلم کو جو تقدس کا درجہ حاصل ہے‘ اس سے سب واقف ہیں۔ اب گردش دوراں کے ہاتھوں مجبور ہوکر یہ خاتون سڑک پر بیٹھ کر جوتے پالش کر رہی ہے تاکہ روزی کما کر اپنا اور اپنے گھروالوں کا پیٹ بھر سکے۔ طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد خواتین کو یہی پریشانی تھی کہ اب ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جائیگا۔ دنیا بھرکے ممالک نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کیلئے جو شرائط رکھی ہیں‘ ان میں سب سے بڑی شرط بھی یہی ہے کہ خواتین کو تعلیم‘ روزگار اور ملازمت کے مساوی مواقع فراہم کئے جائیں۔ زنانہ تعلیمی و ٹیکنیکل اداروں اور سکول کالجز کو بند نہ کیا جائے مگر افسوس کی بات ہے کہ طالبان کے اعلانات کے باوجود افغانستان میں صورتحال مختلف نظر آرہی ہے۔ گزشتہ روز اخبارات میں شائع ہونے والی یہ تصویر خود ہزار خبروں پر بھاری ہے۔ جو اساتذہ ہاتھ میں قلم اور کتاب لیکر ہماری آنے والی نسلوں کا رشتہ کتاب اور قلم سے جوڑتے ہیں‘ جو بہترین معاشرہ تشکیل دینے کا باعث بنتا ہے۔ آج وقت کی گردش نے ان ہاتھوں میں پالش کی ڈبیا اور برش تھما دیا ہے۔ طالبان  اگر خواتین کی تعلیم‘ روزگار اور ملازمت کے سلسلے میں ترجیحی بنیادوں پر کام کریں۔ صنفی امتیاز سے ہٹ کر خواتین کو انہی کے شعبوں میں بااختیار بنائیں تو اس سے اسلام کا روشن چہرہ دنیا کے سامنے آئیگا ۔ پوری عرب دنیا اور عجم میں اسلامی ممالک نے خواتین کو احترام‘ روزگار اور ملازمتوں میں ان کا حصہ دیکر ایک پرامن اور خوشحال معاشرے کی بنیاد رکھی ہے تو افغانستان میں بھی طالبان ایسا کرکے خوشحال‘ پرامن‘ افغانستان کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔

ایل ڈی اے کی نااہلی‘ سڑکوں کی تعمیر میں سٹاپ‘ نہ لائن۔ 

کہتے ہیں کہ کسی ملک کی ترقی میں سڑکیں اہم کردار ادا کرتی ہیں اور اگر توانائی کا ذریعہ حاصل کرلیا جائے تو پھر اس ملک کی ترقی کو کوئی نہیں روک سکتا۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ملک میں سڑکوں کا جال تو ہے لیکن ترقی پھر بھی نظر نہیں آتی‘ توانائی حاصل کرنے کے ڈیم جیسے ذرائع سیاست کی نذر کر دیئے گئے یا بیرونی دبائو کے تحت انہیں بننے نہ دیاگیا۔ وجوہات جو بھی ہوں‘ آزادی کے بعد ترقی کے بجائے ہم پستی کی طرف چلتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں ایل ڈی اے کی جانب سے ایسی سڑکوں کی تعمیر جس پر نہ سٹاپ کی علامت ہے نہ لائن‘ یہ انکی نااہلی نہیں‘ بلکہ ترقی کرنے کا بہت بڑا اشارہ نظر آتا ہے کہ قوم ان سڑکوں پر چل کر’ انّھے وا‘ ترقی کرے‘ نہ اسے کسی سٹاپ پر رکنا پڑیگا نہ دائیں بائیں مڑنے کی پابندی کا سامنا ہوگا‘ جس کا جہاں جی چاہے چلتا چلا جائے اور ترقی کرتاجائے۔ ویسے آپس کی بات ہے‘ پہلے سے تعمیر شدہ سڑکوں پرموجود سٹاپ اور لائن کی پابندی کون کرتا ہے ۔ اسی تناظر میں شاید ایل ڈی اے نے سٹاپ اور لائن لگانے کی زحمت گوارا  نہیں کی کہ قوم کو کون سی ایسی پابندیوں کی عادت ہے۔ سو بے ڈھنگی چال اب بھی ہے ‘آئندہ بھی رہے گی۔

You might also like