بھارت میں پانی کی شدید قلّت؛ موسم گرما میں حالات مزید خراب ھونگےغزہ میں پھنسے دس لاکھ سے زائد لوگ سمندر کا نمکین پانی پینے پر مجبورغزہغزہ میں پھنسے دس لاکھ سے زائد لوگ سمندر کا نمکین پانی پینے پر مجبورامریکی کی ایران کے بیلسٹک میزائل، جوہری اور دفاعی پروگراموں کو سپورٹ کرنے والے پروکیورمنٹ نیٹ ورکس پر نئی پابندیاں عائد کر دیمعیشیت کو درپیش چیلنجزیوم پاکستان کے موقع پر پریڈ میں آذربائیجان اور چین کے فوجی دستے کی شمولیتپشاور شہر اپنی تاریخی اہمیت کے حوالے سے کسی تعارف کا محتاج نہیںمعاشی استحکام کا منصوبہ – ایس آئی ایف سی کے پلیٹ فارم سےنئی دہلی مسلسل چوتھے سال فضائی آلودگی میں دنیا بھر میں سر فہرستآرمی چیف جنرل سید عاصم منیرکاسعودی عرب کا سرکاری دورہخوراک کی اجناس کی در آمد مہنگائی کی اصل وجہسعودی عرب نے انڈونیشیا میں ریکارڈ افطاری کیپنجاب کے شہر منڈی بہاوالدین کی مستانی نامی بھینس نے 24 گھنٹے میں 37 لیٹر دودھ دے کر عالمی ریکارڈ قائم کر دیابلوچستان دشمن کے نشانے پر کیوں ھے؟وزیر اعظم شہباز شریف کا کابینہ کے اہم ارکان کے ہمراہ جی ایچ کیو کا دورہوزیر اعظم شہباز شریفوزیر اعظم شہباز شریف کا کابینہ کے اہم ارکان کے ہمراہ جی ایچ کیو کا دورہمشکل فیصلے اور بڑے بڑے فیصلے۹۲ سالہ روپرٹ مردوک کی پانچوی شادیامریکی ریاست یوٹا میں چھپ کر طیارے میں گھسنے والا شخص جاں بحق‏موسمیاتی تبدیلیاںہمیں کچھ علم نہیں ھمارے ساتھ کیا ھو رھا ھے- اور یہی وجہ ھے کہ ہمارے ساتھ ہاتھ ہو رھا ھے-چین کے شہر سوزو میں ایک ایکسپریس وے کے پھسلن والے حصے پر درجنوں کاریں آپس میں ٹکرا گئیں

عوام آئینی بنیادی حقوق سے محروم کیوں؟

پاکستان کا آئین 1973 میں قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر منظور کیا تھا-اس وقت ملک دو لخت ہو چکا تھا اور معاشی صورتحال انتہائی تشویش ناک تھی-یہ آئین عوام اور ریاست کے درمیان ایک سماجی معاہدہ تھا جسے عمومی طور پر سراہا گیا کیونکہ طویل عرصے کے بعد پاکستان کے عوام کو ایک متفقہ آئین نصیب ہوا تھا- 48 سال گزرنے کے بعد آئین کا تحقیقی جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ بنیادی حقوق پر عملدرآمد کے حوالے سے صورت حال انتہائی افسوسناک ہے-حیران کن طور پر آج تک اس آئین میں جو 25 ترامیم کی گئی ہیں وہ حکمران اشرافیہ کے اقتدار اور اختیارات کے بارے میں ہیں اور کوئی ایک بھی ترمیم ایسی نہیں کی گئی جس کا مقصد عوام کے بنیادی حقوق کو یقینی بنانا ہو- 

آئین کے آرٹیکل 7 سے آرٹیکل 40 عوام کے بنیادی حقوق کے بارے میں ہیں-آرٹیکل 7 سے آرٹیکل 28 کا تعلق نقل و حرکت کی آزادی احترام آدمیت اجتماع کی آزادی اظہار کی آزادی تجارت کی آزادی مذہبی آزادیوں جائیداد کا تحفظ شہریوں کی مساوات زبانوں کی آزادی سے ہے-آرٹیکل 29 سے آرٹیکل 40 تک عوام کے اہم ترین بنیادی حقوق کو شامل کیا گیا ہے-ان اہم ترین حقوق کو پرنسپلز آف پالیسی یعنی حکمت عملی کے اصولوں کے چیپٹر میں ڈال دیا گیا ہے- 48 سال گزر جانے کے باوجود صورت حال جوں کی توں ہے اور ماضی کی کسی حکومت نے عوام کے اہم ترین بنیادی حقوق پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے آئین میں کوئی ترمیم نہیں کی- آئیے آئین کے ان اہم ترین آرٹیکلز کا جائزہ لیتے ہیں-آرٹیکل 32 میں تحریر کیا گیا ہے کہ بلدیاتی اداروں کو فروغ دیا جائے گا-آرٹیکل 34 میں تحریر ہے کہ عورتوں کی مساوی ترقی کو یقینی بنایا جائے گا-آرٹیکل 36 میں درج ہے کہ اقلیتوں کے حقوق اور مفادات کا تحفظ کیا جائے گا-آرٹیکل 37 میں درج ہے کہ سماجی انصاف کو فروغ دیا جائے گا جہالت کو ختم کیا جائے گا۔ ٹیکنیکل تعلیم پر خصوصی توجہ دی جائے گی فوری اور سستا انصاف یقینی بنایا جائے گا – حکومت کی مرکزیت کا خاتمہ کر کے اختیارات کو تقسیم کیا جائے گا-آئین کا آرٹیکل 38 بنیادی حقوق کے حوالے سے آئین کی روح ہے اور انتہائی اہمیت کا حامل ہے-جس میں واضح کیا گیا ہے کہ عام آدمی کے معیار زندگی کو بلند کیا جائے گا – وسائل پیداوار کو چند ہاتھوں میں مرکوز نہیں ہونے دیا جائے گا- 

آئین کا یہ آرٹیکل پاکستان کے شہریوں کو سوشل سیکیورٹی کی یقین دہانی کراتا ہے اور بے روزگاری الاؤنس کا وعدہ کرتا ہے جو ایک ویلفیئر سٹیٹ یعنی فلاحی ریاست کا بنیادی نکتہ ہوتا ہے-

انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ آئین کے اس آرٹیکل پر عمل درآمد کو آرٹیکل 29 سے مشروط کر دیا گیا ہے اور یہ قرار دیا گیا ہے کہ عوام کو بنیادی حقوق ریاست کے وسائل کی روشنی میں دیے جائیں گے اور وسائل کا تعین بھی حکومتی اتھارٹی کرے گی-آرٹیکل 29 میں صدر پاکستان اور صوبائی گورنروں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ہر سال قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے اندر رپورٹ پیش کریں گے کہ حکومت کس حد تک عوام کے بنیادی حقوق پر عملدرآمد کر رہی ہے – انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ آج تک اس آرٹیکل پر عمل ہی نہیں کیا گیا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکمران عوام کے آئینی بنیادی حقوق کے بارے میں کبھی سنجیدہ نہیں رہے بلکہ بے حسی کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں- صدر پاکستان پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے ہرسال جو خطاب کرتے ہیں وہ آئین کے آرٹیکل 56 کا تقاضہ ہے-آئین کے آرٹیکل 30 میں عدالتوں کے اختیارات کو محدود کر دیا گیا ہے اور کوئی شہری بے روزگاری الاؤنس کے لئے کسی عدالت کا دروازہ نہیں کھٹکھٹا سکتا –

 عوام کے آئینی بنیادی حقوق خود آئین کے اندر ہی پابند سلاسل کر دیے گئے – آئین ایک ہاتھ سے شہریوں کو بنیادی حقوق دیتا ہے جبکہ دوسرے ہاتھ سے ان حقوق کو واپس لے لیا گیا ہے اور کوئی حکومت آئین کے بنیادی حقوق کے آرٹیکلز پر عمل درآمد کرنے کی پابند نہیں ہے-لاہور ہائی کورٹ میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت لاہور ہائی کورٹ بار کے صدر مقصود بٹر ایڈوکیٹ نے کی سپریم کورٹ بار کے سابق صدر حامد خان ایڈووکیٹ مہمان خصوصی تھے اس تقریب میں استقلال پارٹی کے چیئرمین منظور گیلانی ایڈوکیٹ لاہور ہائی کورٹ بار کے سابق صدر ظفراقبال کلانوری، سعید مگھیانہ ایڈوکیٹ، منظور بھٹی ایڈوکیٹ زبیر فاروق ایڈووکیٹ آغا مبین ایڈیشنل سیکرٹری جنرل جاگوتحریک پنجاب، حنیف چوہدری ایڈوکیٹ اور چوہدری ممتاز ایڈوکیٹ نے شرکت کی- راقم نے اس تقریب میں پاکستان جاگوتحریک کی آئین کے بنیادی حقوق کے سلسلے میں سفارشات پیش کیں۔مطالبہ کیا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر حقیقی معنوں میں عملدرآمد کرنے اور اسمبلیوں کے امیدواروں کی اہلیت کو جانچنے کے لئے ایک آزاد خودمختار کمیشن تشکیل دیا جائے جو امیدواروں کی سکروٹنی کرے تاکہ اچھے کردار کے لوگ اسمبلیوں میں پہنچ سکیں- عدالتی نظام کو معیاری اور مثالی بنانے کے لیے اور عوام کو فوری اور سستا انصاف فراہم کرنے کے لیے جوڈیشل اپوائنٹمنٹ کمیشن تشکیل دیا جائے جو ججوں کی تعیناتی میرٹ اور صرف میرٹ پر کر سکے جس طرح سینٹ اور خواتین کی خصوصی نشستوں کے انتخابات متناسب نمائندگی کے اصول پر کرائے جاتے ہیں اسی اصول پر تمام اسمبلیوں کے انتخابات کرائے جائیں تا کہ اسمبلیاں عوام کی حقیقی نمائندہ ہوں اور اقلیت کو اکثریت پر حکومت کرنے کا موقع نہ مل سکے – ان سفارشات کو تمام وکلاء نے سراہا اور اتفاق کیا کہ عوام کے بنیادی حقوقِ اور مفادات کو یقینی بنانے اور گڈ گورننس فراہم کرنے کے لیے اور ان پر عمل درآمد کے لئے آئین میں ایک ترمیم کی جانی چاہیے۔ اور ان آرٹیکلز کو آئین سے خارج کر دیا جانا چاہیے جو گزشتہ 48 سالوں سے عوام کے بنیادی حقوق پر عمل درآمد میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں – افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے سیاستدانوں ججوں وکیلوں اور صحافیوں نے کبھی عوام کے آئینی بنیادی حقوق کے بارے میں آواز نہیں اٹھائی اور عوام کے بنیادی حقوق کو آئین کی حراست سے آزاد کرنے کا مطالبہ نہیں کیا- عوام بیدار باشعور اور منظم ہو کر ہی اپنے آئینی بنیادی حقوق حاصل کرسکتے ہیں۔

You might also like