‏چین میں سیلاب‏Ubermenschپونے دوپاکستان میں ہر سال 10 لاکھ مکانات کی ضرورت ہےایران نے اسرائیل پر ڈرون اور میزائیلوُں سے حملہ کر دیا ہےگوجرانوالہ- سیالکوٹ- وزیر آباد- گجرات اور لالہ موسی، بنا بنا اکنامک زونسیاچن کے محاز پر پاکستان کی فوجپاکستان کے شمالی علاقہ جاتمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےمعاشرےمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےاگر ہمّت ہو تو معزوری کوئی رکاوٹ نہیں ہوتیمیلہ 6 ستمبروہ لمحہ جب 7.4 شدت کے زلزلے نے تائیوان کو ہلا ڈالامہنگائی کی شرح ۲۰% پر آ گئی-اپنی صحت کا خیال رکھیں- سوشل میڈیا سے دور رہیںصدر ارگان کی پارٹی کو ترکی میں بلدیاتی انتخابات میں شکستافغان سرزمین دہشتگردوں کی محفوظ آماجگاہ ہے ؛ فنانشل ٹائمچولستان میں زمینوں کو آباد کرنے کا منصوبہسائنوٹیک سولر پرائیویٹ لمیٹڈ کی پاکستان میں سرمایہ کاریپیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 9 روپے 66 پیسے کا اضافہ –مائع پیٹرولیم گیس( ایل پی جی) کی فی کلو قیمت میں 6 روپے 45 پیسے کمی کردی گئی

ایس ایم ایز پالیسی 2021ء کے تحت بلا سود قرضوں کی فراہمی

کسی بھی ملک میں معیشت کو مضبوط اور مستحکم بنانے کے لیے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں اور حکومتوں کی طرف سے ان کاروباروں کو خصوصی رعایتیں اور سہولتیں بھی دی جاتی ہیں تاکہ ان کی مدد سے معاشی پہیہ بہتر طور پر چلانے میں مدد مل سکے۔ پاکستان میں بھی چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کے فروغ کے لیے اکتوبر 1998ء میں سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائز ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سمیڈا) کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، ملک بھر میں50 لاکھ سے زائد معاشی یونٹس موجود ہیں جن میں سے 99 فیصد یونٹس چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں پر مشتمل ہیں۔ یہ کاروبار نہ صرف روزگار کی فراہمی کا بنیادی ذریعہ ہیں بلکہ ملک کی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) کا 40 فیصد حصہ اور برآمدات کا بھی 25 فیصد حصہ ان کاروباروں سے آتا ہے۔ موجودہ حکومت نے سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائز (ایس ایم ای) پالیسی 2021-25ء کی منظوری دیتے ہوئے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کو مراعات و سہولیات فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے بدھ کے روز وفاقی وزیر صنعت و پیداوار مخدوم خسرو بختیار نے کہا کہ ایس ایم ای شعبہ میں 10 لاکھ سے زائد ادارے کام کر رہے ہیں جبکہ لارج سکیل مینوفیکچرنگ میں 4 ہزار کے قریب مینوفیکچرنگ یونٹس مو جود ہیں۔ 78 فیصد روزگار ایس ایم ای سیکٹر سے وابستہ ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ایس ایم ایز کو تین درجوں لوئر رسک، میڈیم رسک اور ہائی رسک میں تقسیم کیا گیا ہے۔ نیا کاروبار شروع کرنے والوں کو نو آبجیکشن سرٹیفیکیٹ (این او سی) کے حصول میں آسانی ہوگی۔ ایس ایم ای کاروبار کرنے والوں کو خصوصی مراعات دیں گے، ایس ایم ایز کے شعبہ میں کاروبار کرنے والی خواتین کو ٹیکس میں 25 فیصد خصوصی رعایت دی جائے گی، ایس ایم ایز کے شعبہ تک رسائی کے لیے 23 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ ملک کے مختلف شہروں میں ایس ایم ایز کے لیے 4200 ایکڑ اراضی مختص کی گئی ہے جہاں پر 19 ہزار 500 پلاٹس آسان اقساط پر فراہم کیے جائیں گے۔ ایس ایم ایز کو این او سیز کے حصول کے لمبے طریقہ کار سے نجات حاصل ہو گی۔

مخدوم خسرو بختیار نے مزید کہا کہ ایس ایم ای پالیسی کے تحت پیداواری کاروباروں کو ٹیکسوں میں 57 فیصد سے 83 فیصد تک خصوصی رعایت دی جائے گی۔ اس پالیسی کا مقصد چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کرنے والوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ہے اور کاروبار کرنے والوں کو ہر قدم پر بہت سی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ موجودہ اور نئی ایس ایم ایز کی حوصلہ افزائی کے لیے ایس ایم ای پالیسی 2021ء کے تحت نئی ریگولیٹری اصلاحات کا نفاذ کیا جائے گا جس کے ذریعے پیچیدہ اور فرسودہ نظام سے چھٹکارا حاصل کر کے کاروبار میں آسانیاں پیدا کی جائیں گی۔ ان کی معاشی دھارے میں شمولیت آسان بنانے کے لیے نہ صرف ان پر ٹیکس کی شرح کم کی جائے گی بلکہ شفاف ای انسپیکشن کا نظام بھی متعارف کروایا جائے گا جس سے انسپیکشن افسران کے صوابدیدی اختیارات کم ہو جائیں گے اور صنعت کاروں کی ہراسگی کے امکانات نہیں رہیں گے۔ ایس ایم ایز کی منڈیوں اور صارفین تک رسائی آسان بنانے کے لیے بھی ای کامرس، آن لائن بزنس اور مقامی و بین الاقوامی نمائشوں میں شمولیت کی خصوصی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔

اس موقع پر ملکی معیشت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری کہا کہ پاکستان کو مضبوط صنعتی بنیاد کی ضرورت ہے جس کے بغیر ہم معاشی مسائل سے باہر نہیں نکل سکتے۔ ہمیں درآمدی معیشت سے باہر نکلنا ہوگا۔ ہم ملکی معیشت میں بہت بڑی تبدیلی لائے ہیں۔ ہماری پوری اکانومی کا انحصار درآمدات پر تھا، د بئی اور سنگاپور کی طرح ہم درآمدات پر گزارا نہیں کر سکتے۔ 

یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ پاکستان کا درآمدات کا حجم برآمدات کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے اور اس کی وجہ سے ہماری معیشت مسلسل دباؤ کا شکار ہے۔ درآمدات کے برآمدات سے زیادہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہم دنیا کے دوسرے ممالک میں اپنی اشیاء بھیج کر زرِ مبادلہ حاصل کم کررہے ہیں اور دوسرے ملکوں سے چیزیں خرید کر انھیں ڈالرز کی شکل میں غیر ملکی کرنسی میں زیادہ ادائیگی کررہے ہیں۔ اس صورتحال کے باعث تجارتی خسارہ بڑھتا ہے جو ملک کی اقتصادی حالت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ حکومت نے نئی ایس ایم ایز پالیسی کے تحت چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کو مراعات اور سہولیات دینے کا جو فیصلہ کیا ہے یہ یقینا خوش آئند ہے لیکن اس کے ثمرات کے ذریعے ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پالیسی کے تحت جو بلا سود قرضے فراہم کیے جائیں گے ان کی فراہمی کے لیے ایک شفاف نظام ترتیب دیا جائے تاکہ قرضے ایسے لوگوں تک پہنچیں جو واقعی انھیں کاروباری مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہوئے ایس ایم ای شعبے پر حکومت اور غیر ملکی کاروباری اداروں کے اعتماد کو مضبوط بنائیں۔ حکومت اگر میرٹ کی بنیاد پر قرضے فراہم کرنے کے لیے ایک شفاف نظام وضع کرلیتی ہے تو نہ صرف یہ اس کی بہت بڑی کامیابی ہوگی بلکہ جلد ہی اس کے مثبت اثرات بھی دکھائی دینا شروع ہو جائیں گے۔

You might also like