‏چین میں سیلاب‏Ubermenschپونے دوپاکستان میں ہر سال 10 لاکھ مکانات کی ضرورت ہےایران نے اسرائیل پر ڈرون اور میزائیلوُں سے حملہ کر دیا ہےگوجرانوالہ- سیالکوٹ- وزیر آباد- گجرات اور لالہ موسی، بنا بنا اکنامک زونسیاچن کے محاز پر پاکستان کی فوجپاکستان کے شمالی علاقہ جاتمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےمعاشرےمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےاگر ہمّت ہو تو معزوری کوئی رکاوٹ نہیں ہوتیمیلہ 6 ستمبروہ لمحہ جب 7.4 شدت کے زلزلے نے تائیوان کو ہلا ڈالامہنگائی کی شرح ۲۰% پر آ گئی-اپنی صحت کا خیال رکھیں- سوشل میڈیا سے دور رہیںصدر ارگان کی پارٹی کو ترکی میں بلدیاتی انتخابات میں شکستافغان سرزمین دہشتگردوں کی محفوظ آماجگاہ ہے ؛ فنانشل ٹائمچولستان میں زمینوں کو آباد کرنے کا منصوبہسائنوٹیک سولر پرائیویٹ لمیٹڈ کی پاکستان میں سرمایہ کاریپیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 9 روپے 66 پیسے کا اضافہ –مائع پیٹرولیم گیس( ایل پی جی) کی فی کلو قیمت میں 6 روپے 45 پیسے کمی کردی گئی

رمیز راجہ کا خواب!!!!!

پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رمیز راجہ ایک ہی وقت میں بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں، وہ بھاگ دوڑ کر رہے ہیں، کبھی معروف کاروباری شخصیات سے مل رہے ہیں تو کبھی وفاقی وزراء سے ملاقاتیں کر رہے، پاکستان کے تباہ حال بنیادی ڈھانچے کو کھڑا کرنے کے لیے انہیں وسائل کی ضرورت ہے۔ اس اہم کام کے لیے انہیں ملک کی کامیاب کاروباری شخصیات سے مدد کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔ مختلف اداروں نے بھی محدود وقت کے لیے اپنی خدمات پیش کی ہیں جیسا کہ ٹونٹی ٹونٹی ورلڈکپ کے دوران غیر ملکی کوچز کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اسی طرح ڈراپ ان پچز کے لیے بھی پاکستان کرکٹ بورڈ سپانسر شپ حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ ڈراپ ان پچز کے منصوبے سے پاکستان کرکٹ کو فائدہ ہو سکتا ہے یا نہیں لیکن چیئرمین کرکٹ بورڈ اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کوششیں ضرور کر رہے ہیں۔ عقیل کریم ڈھیڈی کہتے ہیں کہ وہ کسی مالی فائدے یا پہلو کو ہدف بنائے بغیر پاکستان کرکٹ بورڈ کے ساتھ ہر ممکن تعاون کریں گے۔ نوجوانوں کو منفی سرگرمیوں سے بچانے کے لیے کھیل کے میدانوں کو آباد کرنا ضروری ہے۔ رمیز راجہ یہاں آئے ہیں یہ بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں، نوجوان کرکٹرز کے لیے پی ایس ایل اور خواتین کے مقابلوں پر بھی توجہ دے رہے ہیں۔ ہم ہر طرح سے پی سی بی کی مدد کریں گے۔ نیشنل سٹیڈیم میں سہولیات کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ واضح ہو چکا ہے کہ شائقین کرکٹ کو سٹیڈیم تک لانا مشکل کام ہے۔ شائقین کرکٹ کو سٹیڈیم تک پہنچنے کے لیے مشکلات سے گذرنا پڑتا ہے یہ مسئلہ حل ہونے کی ضرورت ہے۔ رمیز راجہ کا جوش و جذبہ قابل دید ہے۔ یہ جذبہ قابل تعریف بھی ہے۔ بالخصوص گذشتہ تین برسوں کے دوران جتنا نقصان ہوا ہے اس کے ازالے کے لیے ایسے ہی جوش و جذبے کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر چیئرمین اتنی لگن کے ساتھ کام کریں گے تو یقیناً اردگرد افراد کو بھی رمیز راجہ کی رفتار کے ساتھ چلنے کے لیے کچھ نہ کچھ غیر معمولی ضرور کرنا پڑیگا۔نئے چیئرمین کاروباری شخصیات سے مل رہے ہیں، اداروں سے بھی بات چیت کر رہے ہیں کیونکہ بورڈ کو سارا سال مختلف سطح کی کرکٹ کروانے کے لیے پیسوں کی ضرورت ہے۔ احسان مانی اور وسیم خان کے دور میں محکموں کو بند کرنے کے بعد اربوں روپے غیر معیاری ڈومیسٹک کرکٹ پر خرچ کیے اور یہ سلسلہ اس سال بھی جاری ہے۔ حالت یہ ہے کہ قائد اعظم ٹرافی کا فائنل کھیلنے والی ٹیموں کو ہوٹل سے بھی نکال دیا گیا۔ چھ ٹیموں کا نظام سپانسر شپ کا دعویٰ لگا کر مسلط کیا گیا، کلبوں کو سپانسرز کے ذریعے چلانے کے دعوے کرنے والے صوبائی ٹیموں کے لیے بھی سپانسر شپ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ محکموں کی ٹیمیں بند کرنے کے اب یہ نظام کرکٹ بورڈ پر بوجھ بن چکا ہے یہی وجہ ہے کہ رمیز راجہ بھاگ دوڑ کر رہے ہیں۔ اگر انہیں وقتی طور پر کامیابی مل بھی جاتی ہے تو کوئی وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ کاروباری شخصیات یا کچھ ادارے، محکموں کی ٹیموں کی طرح ہمیشہ بورڈ کا ساتھ دیتے رہیں گے۔ بورڈ اگر سپانسرز کی طرف جا رہا ہے تو پھر محکموں کی کرکٹ کا نظام بحال کرنے میں کیا قباحت ہے۔ اس نظام کی بحالی سے ناصرف کرکٹ بورڈ پر مالی بوجھ کم ہو گا بلکہ نئے آئیڈیاز پر کام کرتے ہوئے محکموں کی ٹیموں سے زیادہ بہتر کام لیا جا سکتا ہے۔ اگر بڑی تعداد میں نوجوانوں کو کھیل کے مواقع فراہم کرنے ہیں تو پھر ٹیموں کی تعداد کو بھی بڑھانا پڑے گا۔ صرف چھ ٹیمیں بڑی تعداد میں کرکٹ کھیلنے والوں سے انصاف ہرگز نہیں ہے۔ رمیز راجہ یہ کر سکتے ہیں کیونکہ وہ خود ایک بہت اچھے بینک کی ٹیم کے ساتھ منسلک رہے اور جانتے ہیں کہ محکموں کی ٹیموں سے پاکستان کرکٹ کو کتنا فائدہ ہوا ہے۔ چونکہ وہ بااختیار ہیں بورڈ کو مالی طور پر اور ڈھانچے کو کرکٹ کے اعتبار سے مضبوط کرنے کے خواہشمند ہیں انہیں اس پہلو پر ضرور غور کرنا چاہیے۔ پاکستان میں کرکٹ کھیلنے والوں، کرکٹ منتظمین، آفیشلز اور سابق ٹیسٹ کرکٹرز سب کو رمیز راجہ سے امیدیں ہیں۔ توقع یہی ہے کہ وہ پاکستان کے زمینی حقائق کو مدِنظر رکھتے ہوئے بہتر فیصلے کریں گے۔ بورڈ کے نئے چیف ایگزیکٹیو آفیسر فیصل حسنین نے آتے ساتھ ہی پاکستان کے تاثر کے حوالے سے نہایت نامناسب بات کی ہے ایک طرف گریگ چیپل پاکستان کے بہترین میزبان ملک قرار دیتے ہوئے آسٹریلیا کے دورہ پاکستان کی حمایت کر رہے ہیں تو دوسری طرف اپنے چیف ایگزیکٹیو ملکی تاثر اور غیر ضروری انداز میں پچز کے معیار پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ انہیں اپنے بیانات میں محتاط رویہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے تاثر پر بات کرنے سے پہلے انہیں دو ہزار پندرہ سے اب تک ملک میں ہونے والی بین الاقوامی کرکٹ اور پی ایس ایل کی سرگرمیوں پر ضرور نظر دوڑانی چاہیے۔ جہاں تک پچز کا تعلق ہے تو اس حوالے جنہوں نے بیڑہ غرق کیا ہے اْنہیں کٹہرے میں لانے کی ضرورت ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ ڈراپ ان پچز پر سینتیس کروڑ خرچ کرنے کے بجائے کوئٹہ،گوجرانوالہ، سیالکوٹ اور ڈائمنڈ گراؤنڈ کے معاملات سنبھالنے والوں سے پوچھا جائے کہ یہاں پیس اینڈ باؤنس کیسے ہے، بہرحال اب ہم ڈراپ ان پچز کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ دعا ہے کہ اس منصوبے سے پاکستان کی کرکٹ کو فائدہ پہنچے۔ ویسے پاکستان کے سابق کپتان جاوید میانداد، سابق فاسٹ باؤلر عاقب جاوید اور سابق کپتان سلمان بٹ نے بھی اس منصوبے کی مخالفت کی ہے۔ اس کے علاوہ رمیز راجہ آسٹریلیا کو ہرانے کے مشن پر بھی ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے جب کوئی بھی چیئرمین کرکٹ کھیلنے والے کسی ایک اہم ملک کو شکست دینے کا ہدف لے کر آگے بڑھ رہا ہے۔ یہ ایک اچھا اور متحرک کرنیوا لا ہدف ضرور ہے، ایسے اہداف مقرر کرنے سے ناصرف چیئرمین بلکہ ان کی ٹیم کو بھی بہت زیادہ محنت کرنا پڑیگی۔ آسٹریلیا ہو یا انگلینڈ، نیوزی لینڈ یا پھر جنوبی افریقہ اور بھارت سمیت تمام ٹیموں کو نشانے پر رکھنا چاہیے پھر بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ صرف آسٹریلیا کو ہدف بنانے سے بھی ملکی کرکٹ کا معیار بلند ہو سکتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہماری بنیادی ڈھانچہ آسٹریلیا یا کرکٹ کھیلنے والے دیگر ممالک کا مقابلہ کرنے کے لیے کھلاڑی پیدا کرنے کے قابل ہے۔ رمیز راجہ کی آمد پر کرکٹ کے حلقوں نے خوشی کا اظہار کیا تھا اگر وہ ناکام ہوتے ہیں تو ان پر تنقید بھی دوسروں سے زیادہ ہو گی۔ رمیز راجہ کی خواہش اور خواب پاکستان کرکٹ کی بہتری ہے خواب کی تعمیر اور خواہش کی تکمیل کے لیے بہتر راستے کا انتخاب سب سے اہم ہے۔

You might also like