دھرتی ماں اور ماں
راوی ؛ عتیق الرحمان
( ھزاروں سچی کہانیوں میں سے ایک )
یہ واقعہ کیوں باد آ گیا مجھے پتا نہیں ،لیکن میں اس کا چشم دید گواہ ہوں – منیر ایوب میرا محلے دار ہے- عمر میں دو تین سال چھوٹا ہے- لاھور ماڈل ٹاؤن میں ایک ہی سکول میں تعلیم حاصل کی اور اکٹھے کھیل کود کر بڑے ھوئی- منیر ایوب اب ایک مقامی فوم فیکٹری میں سیلز ایگزیکٹو ہے- ۲۰۱۵ کے اوائل کی بات ہے کہ منیر کی والدہ کی رات کو طبیعت اچانک خراب ھو گئی – اس نے مجھے فون کیا ، میں فورا منیر کے گھر پہنچا، ھم دونوں فوری طور پر آنٹی کو منیر کی گاڑی میں لاہور ھسپتال لے گئے – ڈاکٹروں نے فوری طبی امداد دی، ٹیسٹ وغیرہ لئے اور علاج شروع کر دیا- بلڈ پریشر شوٹ کر گیا تھا- ڈاکٹروں نے مریض کو چار پانچ دن ھسپتال میں رھنے کا مشورہ دیا- اتنی دیر میں صبح ھو چکی تھی منیر نے بیگم کو فون کر کے صورت حال بتائی ، بچوں کو سکول لیجانے اور لانے کی ذمہ داری سونپی اور دفتر فون کر دیا کہ وہ چار پانچ دن تک آفس نہیں آ سکے گا- منیر ایوب والدہ کے ساتھ ہی ہسپتال رک گیا-ایک ھفتے بعد منیر ایوب کی والدہ صحتاب ھو کر گھر آ گئیں اور زندگی کا پہیہ دوبارہ اسی رفتار سے چل پڑا-
کوئی ایک ھفتہ گزرا ہو گا کہ منیر گلی میں ملا چہرہ بہت مرجھایا ھوا- میں سمجھا آنٹی کی طبیعت دوبارہ خراب ہو گئی ہے- استفسار پر منیر نے بتایا کہ خالہ کو ملتان میں ھارٹ اٹیک ہوا ھے- امی سفر نہیں کر سکتیں لیکن بہت پریشان ہیں –
منیر کی خالہ ( امی کی چھوٹی بہن) ملتان میں رھتی ہیں – خالہ کا ایک ہی بیٹا ہے جمشید جو کہ فوج میں میجر تھا-ان دنوں جمشید لائن آف کنڑول پر استور سے آگے ،منی مرگ ( کارگل کے بلمقابل) ایک یونٹ میں تعینات تھا- جمشید کے بیوی بچے دادی کے پاس ہی رہ رھے تھے – جو افیسرز آگے لائن آف کنٹرول پر رھتے ہیں ان کی فیملیز کو اپنے بندوبست پر رھنا ہوتا ھے تو عموما فیملیاں ماں باپ یا سسرال میں چھوڑ کے جانا پڑتا ہے- خالہ کو دل کا دورہ پڑا تو جمشید کی بہنیں اور بیوی خالہ کو ملتان میں ھسپتال لے گئے- جمشید کے ساتھ رابطہ نہیں تھا کیونکہ ان علاقوں میں موبائل فون کام نہیں کرتے- بالواسطہ جمشید کو ایک دوست کے ذریعے اطلاع دی گئی- جمشید آگے کسی پوسٹ پر ڈیوٹی انجام دے رھا تھا – پوسٹ بھی چودہ ھزار فٹ پر بٹالین ھیڈ کوارٹر سے ایک دن کی پیدل مسافت پر تھی- برفباری ھو رھی تھی اس لئے کسی قسم کی مومنٹ جان لیوا ثابت ھو سکتی تھی – میجر جمشید تک اطلاع پہنچ چکی تھی لیکن بے بسی کی انتہاء تھی کہ نہ فون تھا ، نہ سفر کرنے والے حالات – تین دن مسلسل برف باری ھوتی رھی- چوتھے دن دوپہر برفباری رکی تو جمشید نے بٹالیں ھیڈ کوارٹر کا سفر شروع کیا- رات گیارہ بجے وہ بٹالین ھیڈ کوارٹر پہنچ گیا- اگلے دن گلگت کے لئے پیدل روانہ ھونا تھا – صبح پھر اطلاع ملی کہ موسم خراب ہے ، کوئی بھی موومنٹ نہیں ھوسکتی- برفباری میں جب موومنٹ ہو تو سلائیڈ آنے کا خطرہ ہوتا ہے- جمشید کی امی کو ہسپتال میں چوتھا دن تھا، دوبارہ ھارٹ ھوا اور امی جانبر نہ ھو سکیں- جمشید ابھی تک برفیاری کے سبب بٹالین ھیڈ کوارٹر میں تھا- جمشید تک اسی بالواسطہ ذریعے سے اطلاع پہنچی تو اس پر قیامت ٹوٹ پڑی – اسے سمجھ نہیں آ رھی تھی کی والدہ کے بچھڑ جانے کے غم پر روۓ یا بے بسی پر- اگلے دن والدہ کا جنازہ ھوا اور ملتان میں ہی انہیں سپرد خاک کر دیا گیا- یہ تفصیلات مجھے منیر نے بتائیں – جمشید ابھی تک کامری میں ہی موسم کی بہتری کا انتظارکررھا تھا – چھ دن بعد موسم صاف ھوا تو وہ گلگت کے لئے روانہ روانہ ہوا- جس دن ملتان گھر پہنچا تو والدہ کو فوت ھوئے دس دن گزر چکے تھے- والدہ کی قبر پر دعا کرنے گیا تو کوشش کے باوجود آنسوؤں کی جڑی کو نہ روک سکا- جی بھر کر رویا ، دعا کرتے ہوئے ماں سے معافی مانگی کہ ماں مجھے معاف کر دینا ، تیرا بیٹا دھرتی ماں کی حفاظت کر رھا تھا، تیرے لئے وقت پر نہ پہنچ پایا- اللہ تعالی تیری مغفرت کرے – آج بھی اس واقع کو یاد کر کے جھرجھری سی آ جاتی ہے-