‏عوامی اضطراب- کیا وجہ؟‏چین میں سیلاب‏Ubermenschپونے دوپاکستان میں ہر سال 10 لاکھ مکانات کی ضرورت ہےایران نے اسرائیل پر ڈرون اور میزائیلوُں سے حملہ کر دیا ہےگوجرانوالہ- سیالکوٹ- وزیر آباد- گجرات اور لالہ موسی، بنا بنا اکنامک زونسیاچن کے محاز پر پاکستان کی فوجپاکستان کے شمالی علاقہ جاتمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےمعاشرےمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےاگر ہمّت ہو تو معزوری کوئی رکاوٹ نہیں ہوتیمیلہ 6 ستمبروہ لمحہ جب 7.4 شدت کے زلزلے نے تائیوان کو ہلا ڈالامہنگائی کی شرح ۲۰% پر آ گئی-اپنی صحت کا خیال رکھیں- سوشل میڈیا سے دور رہیںصدر ارگان کی پارٹی کو ترکی میں بلدیاتی انتخابات میں شکستافغان سرزمین دہشتگردوں کی محفوظ آماجگاہ ہے ؛ فنانشل ٹائمچولستان میں زمینوں کو آباد کرنے کا منصوبہسائنوٹیک سولر پرائیویٹ لمیٹڈ کی پاکستان میں سرمایہ کاریپیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 9 روپے 66 پیسے کا اضافہ –

تھیلیسیمیا سے آگاہی کا دن

راولپنڈی (نیوز ڈیسک )پاکستان سمیت دنیا بھر میں تھیلیسیمیا سے آگاہی کا دن منایا جا رہا ہے، یہ ایک موروثی بیماری ہے جو والدین کی جینیاتی خرابی کے باعث اولاد میں منتقل ہوتی ہے۔تھیلیسیمیا کا شکار مریضوں کے جسم میں پیدائشی طور پر خون نہیں بنتا، اس مرض کی بڑی وجہ خاندان میں شادیاں ہیں، اس مرض میں مبتلا معصوم بچے دل میں جینے کی امنگ تو رکھتے ہیں لیکن ان کی زندگی قطرہ قطرہ خون کی محتاج رہتی ہے، رگوں میں چلتا خون ان بچوں کی سانسیں بحال رکھتا ہے۔اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں 100 میں سے 5 بچے اس موذی مرض کا شکار ہوتے ہیں، ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک بھر میں ایک لاکھ سے زائد بچے اس موذی بیماری سے جنگ لڑ رہے ہیں۔طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مرض سے بچنے کے لئے شادی سے پہلے تھیلیسیمیا کے ٹیسٹ لازمی کروائے جائیں تاکہ اس دنیا میں آنے والا ہر بچہ اس موذی مرض سے محفوظ رہ سکے۔جینیاتی اعتبار سے تھیلیسیمیا کی دو بڑی قسمیں ہیں جنہیں الفا تھیلیسیمیا اور بیٹا تھیلیسیمیا کہتے ہیں، مرض کی شدت کے اعتبار سے تھیلیسیمیا کی تین اقسام ہیں، تھیلیسیمیا کی شدید ترین قسم میجر اور سب سے کم شدت والی قسم تھیلیسیمیا مائنر کہلاتی ہے جبکہ درمیانی شدت والی قسم تھیلیسیمیا انٹرمیڈیا ہے۔عالمی ادارہ صحت کے زیر اہتمام ہر سال مئی کے آغاز میں تھیلیسیمیا سے آگاہی کا دن منایا جاتا ہے، لٰہذا ہم سب پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ لوگوں میں اس بیماری سے متعلق شعور اجاگر کریں۔

You might also like