‏چین میں سیلاب‏Ubermenschپونے دوپاکستان میں ہر سال 10 لاکھ مکانات کی ضرورت ہےایران نے اسرائیل پر ڈرون اور میزائیلوُں سے حملہ کر دیا ہےگوجرانوالہ- سیالکوٹ- وزیر آباد- گجرات اور لالہ موسی، بنا بنا اکنامک زونسیاچن کے محاز پر پاکستان کی فوجپاکستان کے شمالی علاقہ جاتمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےمعاشرےمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےاگر ہمّت ہو تو معزوری کوئی رکاوٹ نہیں ہوتیمیلہ 6 ستمبروہ لمحہ جب 7.4 شدت کے زلزلے نے تائیوان کو ہلا ڈالامہنگائی کی شرح ۲۰% پر آ گئی-اپنی صحت کا خیال رکھیں- سوشل میڈیا سے دور رہیںصدر ارگان کی پارٹی کو ترکی میں بلدیاتی انتخابات میں شکستافغان سرزمین دہشتگردوں کی محفوظ آماجگاہ ہے ؛ فنانشل ٹائمچولستان میں زمینوں کو آباد کرنے کا منصوبہسائنوٹیک سولر پرائیویٹ لمیٹڈ کی پاکستان میں سرمایہ کاریپیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 9 روپے 66 پیسے کا اضافہ –مائع پیٹرولیم گیس( ایل پی جی) کی فی کلو قیمت میں 6 روپے 45 پیسے کمی کردی گئی

اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے !

 یہ خوبصورت نظم ملتان کے منفرد ، ممتاز، نعت گو شاعر عرش صدیقی صاحب کی ہے ، ہجرت کے بعد انہوں نے ملتان کو ہی اپنا مسکن بنا لیا۔ فیض کی طرح انگریزی زبان کے پروفیسر ہونے کے باوصف انہیں اردو سے انس اور لگائو تھا۔ 

شاعری بھی کی تو اسی زبان میں! شاکر شجاع آبادی سرائیکی شاعری کا مستند حوالہ ہے۔ اسی طرح اردو شاعری انکی شناخت بنی۔ فرانسیسی شاعر  Villon نے Snows of Yester Years (ترجمہ) لکھی اور قومی شاعر بن گیا۔ اتنی ہی خوبصورت نظم عرش صاحب نے لکھی۔ یہ الگ بات کہ قومی شاعرہونے کا اعزاز حفیظ جالندھری نے سمیٹ لیا۔ جو لوگ غالب کی غزلوں میں فارسی الفاظ کی بھرمار پرمعترض ہوتے ہیں، انہیں ایک بار پھر سے قومی ترانہ ضرور پڑھنا چاہئے۔ ہو سکتا ہے کہ جُملہ معترضہ ہو۔ مقصد یہ ہے کہ فارسی الفاظ کی آمیزش کے بغیر بات بنتی نہیں ہے۔ ہمارے بیشتر شعرا نے بہار کو خراج پیش کیا ہے۔ یخ بستہ دسمبر کو درخور اعتنانہیں سمجھا۔ اب دورکیا جانا۔امام غزل غالب کو ہی پڑھ لیں

ہے رنگِ لالہ و گل نسرین جُدا جُدا 

ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہیے

جناب فیض بھلا کہاں پیچھے رہنے والے تھے ، نہ گل کھلے ہیں، نہ ان سے ملے نہ مے پی ہے۔ 

عجیب رنگ میں اب کے بہار گزری ہے 

شاعر مشرق بھی لطف اندوز ہوتے تھے 

ہوا خیمہ زن کاروانِ بہار 

ارم بن گیا دامنِ کوہسار

خزاں کو ہمارے اکثر شعرا نے ناپسند کیا ہے۔ انگریزی زبان کے شاعر شیلے نے البتہ درمیانی راستہ نکالا۔ خزاں رسیدہ زرد پتوں میں بھی اسے حسن کی رمق نظر آئی۔ 

Pale, yellow, hectic red if winter comes, can spring be far behind .

دور خزاں کا لطف لے صبح بہار کی قسم!

عرش صاحب سے میری ملاقات اتفاقی تھی لیکن اس کے بعد جو رشتہ قائم ہوا وہ خلوص محبت اوررواداری کا تھا۔ عرش صاحب خود اسے Love at first sight کہتے تھے ۔ رحیم یار خان میں جب ڈپٹی کمشنر تھاتو ہم نے خواجہ فرید پر سیمینار کرایا۔ ساتھ ہی آل پاکستان مشاعرے کااہتمام کیا۔ عرش صاحب نے خواجہ فرید پر ایک جاندار مقالہ پڑھا اور رات کو اپنی دلنشیں شاعری سے مشاعرہ لوٹ لیا۔ انہوںنے پہلی بار حاضرین کی توہ اس امر کی طرف مبذول کرائی کہ اکثر لوگ خواجہ فرید کو بابا فرید سے کنفیوژ کر دیتے ہیں۔ حالانکہ دونوں کے کلام میں نمایاں فرق ہے۔ دونوں نے اپنے اپنے رنگ میں الگ بات کی ہے۔ بابا فرید کے کلام میں روحانیت کا غلبہ ہے حتیٰ کہ سکھوں کے مذہبی رہنما گورونانک بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ گرنتھ صاحب کا پاٹ کریں تو ہلکی سی جھلک نظر آتی ہے۔ خواجہ فریدکا کلام آفاقی ہے، جب اس کا ترجمہ دیگر زبانوں میں ہوا تو اس نے دنیا کے ادب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔

 ’ہُن تھی فریدا شادول۔ مونجھاں کوں نہ کر یاد وَل جھوکاں تھیسس، آبادول!‘

عرش صاحب کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ اس تعصب کدورت اور مخاصمت سے کوسوں دور تھے جو آجکل ہماری شاعری کا سکہ رائج الوقت ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ ایک اچھا شاعر بہترین انسان بھی ہو۔ مثالیں دینا شایدمناسب نہ ہو۔ ایک نئی بحث چھڑ جائیگی۔ یہ درست ہے کہ اکثر شعرا نرگیست کا شکار رہے ہیں، شاعرانہ تعلی بھی ایک حد تک قابلِ قبول ہے لیکن جب حد سے بڑھ جائے تو پھر رعونت کے زمرے میں آ جاتی ہے۔ ہمارے ایک مقبول شاعر اپنے سوا کسی کو شاعرنہیں مانتے تھے۔ وہ قتیل شفائی کو فلمی شاعر گردانتے! احمد ندیم قاسمی کو نثر نگار قرار دیتے‘ اس سلسلے میں ایک لطیفہ یاد آیا ہے۔ میر تقی میر کہتے تھے کہ ہندوستان میں صرف اڑھائی شاعرہیں۔ وہ خود، مرزا رفیع سودا اور آدھے خواجہ میر درد۔ جب انکی توجہ استاد شاہ میرسوز کی طرف دلائی گئی تو ہنس کر بولے چلیے ، پونے تین مان لیتے ہیں۔  (جاری)

You might also like