‏چین میں سیلاب‏Ubermenschپونے دوپاکستان میں ہر سال 10 لاکھ مکانات کی ضرورت ہےایران نے اسرائیل پر ڈرون اور میزائیلوُں سے حملہ کر دیا ہےگوجرانوالہ- سیالکوٹ- وزیر آباد- گجرات اور لالہ موسی، بنا بنا اکنامک زونسیاچن کے محاز پر پاکستان کی فوجپاکستان کے شمالی علاقہ جاتمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےمعاشرےمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےاگر ہمّت ہو تو معزوری کوئی رکاوٹ نہیں ہوتیمیلہ 6 ستمبروہ لمحہ جب 7.4 شدت کے زلزلے نے تائیوان کو ہلا ڈالامہنگائی کی شرح ۲۰% پر آ گئی-اپنی صحت کا خیال رکھیں- سوشل میڈیا سے دور رہیںصدر ارگان کی پارٹی کو ترکی میں بلدیاتی انتخابات میں شکستافغان سرزمین دہشتگردوں کی محفوظ آماجگاہ ہے ؛ فنانشل ٹائمچولستان میں زمینوں کو آباد کرنے کا منصوبہسائنوٹیک سولر پرائیویٹ لمیٹڈ کی پاکستان میں سرمایہ کاریپیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 9 روپے 66 پیسے کا اضافہ –مائع پیٹرولیم گیس( ایل پی جی) کی فی کلو قیمت میں 6 روپے 45 پیسے کمی کردی گئی

پروفیسر جابر علی سید: علم و ادب کا نمایاں حوالہ

میں نے پرائمری جماعت سے ایم اے تک کم و بیش پچاس اساتذہ سے پڑھا ہے۔ ان میں آٹھ دس اساتذہ ایسے ہیں جو کسی نہ کسی وجہ سے مجھے یاد آ جاتے ہیں۔ ان میں سرفہرست پروفیسر جابر علی سیّد ہیں۔ پروفیسر صاحب سے میں نے گورنمنٹ کالج جھنگ میں فارسی پڑھی تھی۔ دو تین برسوں میں وہ دو بار تبدیل کرکے کسی اور شہر میں بھیج دیے گئے لیکن اربابِ اختیار انھیں پھر سے جھنگ کالج میں واپس بھیج دیتے تھے۔ ایف ایس سی میں فیل ہونے کے بعد میں نے آخرکار اپنے والدین کو رضامند کر لیا کہ میں ایف اے کروں۔ چونکہ یہ امتحان مجھے آٹھ مہینوں کے بعد دینا تھا۔ اس لیے میں نے ان مضامین کا انتخاب کیا جنھیں میں اتنی کم مدت میں آسانی سے تیار کر سکوں چنانچہ فارسی ، تاریخ اور اسلامیات لے کر کالج جانے لگا۔ اس زمانے میں جابر صاحب دوبارہ جھنگ کالج آ چکے تھے۔ میں نے جب پہلے دن ان کی کلاس پڑھی تو اندازہ ہوا کہ وہ کتاب کے متن کو چھوڑ کر دائیں بائیں نکل جاتے ہیں۔ یہ کتاب صوفی غلام مصطفی تبسم صاحب کی مرتب کی ہوئی تھی اور اچھی خاصی ضخیم اور مشکل کتاب تھی۔ فردوسی کے شاہنامے سے بیسیوں اشعار، نامور قصیدہ نگاروں کے آٹھ دس قصائد، خیام اور دیگر شاعروں کی رباعیات، سعدی ، حافظ ، خسرو ، نظیری اور فیضی کی غزلیات، یہاں تک کہ کئی ہمعصر فارسی شعراء کا کلام بھی اس میں شامل تھا لیکن چونکہ میں نے سکول میں فارسی پڑھ رکھی تھی اور ماسٹر منظور علی خوف نے ، جو مجید امجد کے ماموں تھے ، اپنے رعشہ زدہ ہاتھوں سے ڈنڈے مار مار کر مجھے گردانیں خوب رٹوا دی تھیں اس لیے پڑھنے اور سمجھنے میں بہت لطف آتا تھا مگر تین چار لڑکوں کے سوا جابر صاحب کی تدریس سے کسی کو مطمئن نہیں پایا۔ وہ متن کی ریڈنگ کراتے ، اکثر لڑکے وزن میں شعر نہیں پڑھ سکتے تھے اس لیے وہ عموماً غصے میں آ جاتے ۔ میں چونکہ اشعار کو موزوں پڑھ سکتا تھا اس لیے جلد ہی وہ ریڈنگ مجھ سے کرانے لگے۔ تلفظ کی اغلاط پر ٹوکتے تھے اور اصلاح کرتے جاتے تھے۔ میں بہت خوش ہوتا تھاکہ کچھ سیکھ رہا ہوں۔ رفتہ رفتہ کلاس سے باہر بھی ان کے ساتھ نشست و برخاست کا سلسلہ شروع ہوا۔ بعض اوقات کسی چائے خانے میں بھی ان کے پاس بیٹھنے کا موقع مل جاتا۔ 

جابر صاحب جھنگ میں بطور شاعر زیادہ معروف تھے۔ وہاں ادبی حلقوں میں تنقیدی نشستیں بھی ہوتی تھیں۔ وہاں بھی وہ آ جاتے اور گاہے اپنی کوئی غزل تنقید کے لیے پیش کر دیتے۔ وہاں سامعین کا عمومی معیار معمولی درجے کا ہوتا تھا۔ شرکا میں سے کوئی شخص انکے کسی لفظ یا ترکیب پر اعتراض کر دیتا تو بہت ناراض ہوتے۔ ان دنوں وہ جابر علی جابر ہوتے تھے۔ پھر غالباً ملتان میں ایک لطیفہ ہوا جس کا کریڈٹ ایک سے زیادہ لوگ لیتے ہیں۔ کسی نے کہا، جابر علی جابر سے یوں لگتا ہے کہ علی دو جابروں کے درمیان آیا ہوا ہے۔ چونکہ علی کا اشارہ حضرتِ علیؓ کی جانب ہونے کا احتمال تھا اس لیے انھوں نے بعدازاں جابر علی سیّد لکھنا شروع کر دیا اور پھر ان کی نظم و نثر اسی نام سے منظر عام پر آنے لگی۔

جابر صاحب جھنگ میں بطور شاعر زیادہ معروف تھے۔ وہاں ادبی حلقوں میں تنقیدی نشستیں بھی ہوتی تھیں۔ وہاں بھی وہ آ جاتے اور گاہے اپنی کوئی غزل تنقید کے لیے پیش کر دیتے۔ وہاں سامعین کا عمومی معیار معمولی درجے کا ہوتا تھا۔ شرکا میں سے کوئی شخص انکے کسی لفظ یا ترکیب پر اعتراض کر دیتا تو بہت ناراض ہوتے۔ ان دنوں وہ جابر علی جابر ہوتے تھے۔ پھر غالباً ملتان میں ایک لطیفہ ہوا جس کا کریڈٹ ایک سے زیادہ لوگ لیتے ہیں۔ کسی نے کہا، جابر علی جابر سے یوں لگتا ہے کہ علی دو جابروں کے درمیان آیا ہوا ہے۔ چونکہ علی کا اشارہ حضرتِ علیؓ کی جانب ہونے کا احتمال تھا اس لیے انھوں نے بعدازاں جابر علی سیّد لکھنا شروع کر دیا اور پھر ان کی نظم و نثر اسی نام سے منظر عام پر آنے لگی۔

جابر مرحوم علمِ عروض میں بڑی مہارت رکھتے تھے۔ ان کے ساتھ کالج سے باہر میری جو ملاقاتیں ہوئیں ان میں مجھے عروض سے دلچسپی پیدا ہوئی۔ ایک بار ہم ان کے ساتھ ایک چائے خانے میں بیٹھے تھے۔ نذیر ناجی بھی (جو بعد میں بہت نامور صحافی بنے) موجود تھے۔ ان دنوں وہ بھی ہماری طرح نوجوان تھے اور ضرورت سے زیادہ پُراعتماد ہوا کرتے تھے۔ انھوں نے ہمیں ایک غزل سنائی ، اس کے دو مصرعے وزن میں نہیں تھے۔ جابر صاحب نے ادھر توجہ دلائی مگر ناجی اڑ گئے اور ماننے سے انکار کردیا۔ جابر صاحب نے غصے میں آ کر کوٹ کی جیب سے ایک چھوٹی سی نوٹ بک اور پنسل نکالی۔ دونوں مصرعے لکھے۔ وزن کی بحر اور پیمانہ لکھا۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ پیمانہ ’مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن‘ تھا۔ انھوں نے دونوں مصرعوں کی تقطیع کی اور نوٹ بک ان کی طرف پھینک دی مگر پھر بھی وہ نہیں مانے اور کہنے لگے کہ میں لاہور جا کر شہزاد احمد شہزاد سے رائے لوں گا۔ میں سمجھا کہ شہزاد شاعر ہونے کے علاوہ بہت بڑے عروضی ہوں گے مگر بہت برسوں بعد جب لاہور میں ان کے ساتھ ملاقات کے ان گنت موقعے میسر آئے تو معلوم ہوا کہ وہ عروض سے واجبی طور پر واقف ہیں– حالانکہ جابر صاحب عروض کی باریکیوں سے آگاہ تھے۔

مجید امجد کی آخری نظموں کے بارے میں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ نثری نظمیں ہیں۔ میں نے 1979ء میں مجید امجد کی شاعری کا ایک انتخاب ’ان گنت سورج‘ کے نام سے شائع کیا۔ جابر صاحب ملتان یونیورسٹی (اب بہاء الدین زکریا یونیورسٹی) میں اکثر میرے پاس تشریف لاتے تھے۔ میں نے ایک جلد انھیں پیش کی اور ان نظموں کی بحور کے سلسلے میں رائے پوچھی تو انھوں نے پن نکالا اور دو نظموں کا عروضی تجزیہ کتاب کے متعلقہ صفحات ہی پر شروع کر دیا اور کچھ دیر کے بعد کہنے لگے، یہ نظمیں اوزانِ شعری پر پوری اترتی ہیں اور ہرگز نثری نظمیں نہیں ہیں۔ 

جابر صاحب گورنمنٹ کالج جھنگ سے تبدیل ہو کر ملتان میں پڑھانے لگے تھے اور سیالکوٹ کے اس باسی نے ملتان کو اپنا دیس بنا لیا تھا۔ پھر وہیں رہے اور وہیں کی مٹی اوڑھ کر دنیا سے رخصت ہوئے۔ میں نے تقریباً ایک سال ملتان یونیورسٹی میں تدریسی اور انتظامی معاملات کے ساتھ بسر کیا اور آخر مستعفی ہو کر لاہور واپس آ گیا۔ اس ایک سال میں جابر صاحب سے بہت ملاقاتیں ہوئیں۔ وہ اکثر یونیورسٹی میں میرے پاس تشریف لاتے اور جب بھی آتے میں علمی اور ادبی موضوعات پر ان سے بہت استفادہ کرتا۔ وہ سرتا پا شاعر اور عالم تھے۔ ان دنوں بھٹو کی پھانسی کی وجہ سے شہر میں طلبہ کے ہنگامے بھی ہو جاتے۔ جابر صاحب کبھی ان ہنگاموں سے بہ مشکل گزر کر میرے پاس پہنچتے مگر سیاست کی کوئی بات نہ کرتے اور بیٹھتے ہی علمی اور ادبی مسائل پر گفتگو شروع کر دیتے۔ ان دنوں ایک بار میں نے ان سے گزارش کی مجھے فارسی شاعری پڑھا دیا کریں۔ طے ہوا کہ وہ نامور قصیدہ نگاروں کے چند قصائد مجھے پڑھا دیں گے مگر چونکہ میں وہاں سے بہت جلد مستعفی ہو کر لوٹ آیا اس لیے اس پروگرام پر عمل نہ ہو سکا۔ میں اسے آج تک اپنی محرومی تصور کرتا ہوں۔ 

جابر صاحب نے بہت سا علمی اور ادبی کام اپنی یادگار چھوڑا ہے۔ حال ہی میں اورینٹل کالج میں شعبۂ اردو کی استاد ڈاکٹر انیلا سلیم کی کتاب ’جابر علی سیّد: حیات اور ادبی خدمات‘ شائع ہوئی ہے جس پر انھیں پنجاب یونیورسٹی نے پی ایچ ڈی کی ڈگری دی ہے۔ جابر صاحب کی شعری اور ادبی خدمات سے آگاہی کے لیے اس مقالے سے رجوع کیجیے۔

جابر صاحب سیالکوٹ کے رہنے والے تھے جہاں وہ 1923ء میں پیدا ہوئے۔ بی اے کرنے کے بعد مہاراشٹر (جنوبی ہند) میں چند سال انگریز فوجیوں کو اردو پڑھاتے رہے۔ 1947ء میں پنجاب یونیورسٹی سے فسٹ کلاس فسٹ لے کر ایم اے فارسی کیا۔ وحید قریشی ان کے ہم درس اور عزیز دوست تھے۔ ان سے جابر صاحب کے دوستانہ تعلقات زندگی بھر رہے اور لاہور آتے تو وحید صاحب سے ضرور ملتے۔ وہاں میری بھی جابر صاحب سے کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ انہوں نے ایم اے (اردو) کب کیا اور کیا بھی یا نہیں؟ اس سلسلے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ وہ انتہائی وسیع المطالعہ شخص تھے۔ فارسی اور اردو میں علامہ بھی کہا جائے تو زیبا ہے لیکن انھوں نے انگریزی ادب کا بھی وسیع مطالعہ کر رکھا تھا اور کالجوں میں ان کے انگریزی پڑھانے والے رفقائے کار بھی ان سے استفادہ کرتے تھے۔ انگریزی عروض سے بھی انھیں بہت دلچسپی تھی۔ کرکٹ سے ان کی دلچسپی جنون کی حد تک پہنچی ہوئی تھی اور کرکٹ میچ دیکھنے کے لیے اپنی دیگر سرگرمیاں معطل کر دیتے تھے۔ عموماً سنجیدہ رہتے تھے مگر اعلیٰ درجے کی حسِ مزاح رکھتے تھے ، لباس اور ظاہری حلیے پر کم توجہ دیتے تھے۔ خوش شکل اور دراز قامت تھے مگر لگتے نہیں تھے۔ وہ جب ریٹائر ہوئے تو بظاہر خوشی کا اظہار کرتے تھے مگر اندر سے بہت افسردہ تھے۔ وہ ان لوگوں میں تھے جن کے لیے حکومت کوئی تحقیقی ادارہ بناتی اور اس میں انھیں تحقیق کرنے کے ذرائع مہیا کرتی تو وہ بہت عمدہ کام کر سکتے تھے مگر ہمارے ہاں یہ کبھی ممکن ہی نہیں ہو سکا۔ چنانچہ ایک بڑا عالم اپنی بیشتر صلاحیتیں اپنے ساتھ لے کر 3 جنوری 1985ء کو بیماریوں سے نبرد آزما رہ کر دنیا سے رخصت ہوا۔ 

You might also like