Leadership Dilemmaنیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد میں پاک برطانیہ علاقائی استحکام کے موضوع پر چھٹی (6)کانفرنس منعقد ہوئیچین کے بڑے شہر اپنے ہی وزن سے دب رھے ہیںTransformation of Political Conflictوفاقی کابینہ نے نجی یونیورسٹیوں اور دیگر تمام اداروں کیلئے لفظ نیشنل استعمال کرنے پر پابندی عائد کردی‏عوامی اضطراب- کیا وجہ؟‏چین میں سیلاب‏Ubermenschپونے دوپاکستان میں ہر سال 10 لاکھ مکانات کی ضرورت ہےایران نے اسرائیل پر ڈرون اور میزائیلوُں سے حملہ کر دیا ہےگوجرانوالہ- سیالکوٹ- وزیر آباد- گجرات اور لالہ موسی، بنا بنا اکنامک زونسیاچن کے محاز پر پاکستان کی فوجپاکستان کے شمالی علاقہ جاتمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےمعاشرےمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےاگر ہمّت ہو تو معزوری کوئی رکاوٹ نہیں ہوتیمیلہ 6 ستمبروہ لمحہ جب 7.4 شدت کے زلزلے نے تائیوان کو ہلا ڈالامہنگائی کی شرح ۲۰% پر آ گئی-اپنی صحت کا خیال رکھیں- سوشل میڈیا سے دور رہیں

انصاف میں تاخیر اور اس کی وجوہات

پاکستانی عدالتوں میں اس وقت لاکھوں کی تعداد میں کیسز بوسیدہ فائلوں میں دفن ہیں۔سپریم کورٹ میں ہزاروں کیسز منصفوں کی راہیں تک رہے ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ میں بھی دو لاکھ کے لگ بھگ  کیسز جمع ہیں۔ سید رسول کو جب لاہور ہائی کورٹ نے قتل کیس میں بری کیا تو پتہ چلا کہ وہ تو 2 سال پہلے جیل میں انتقال کرگئے ہیں،جب مظہر حسین کو 19 سال بعد قتل کیس میں سپریم کورٹ نے بری کر دیا تو معزز عدالت کو بتایا گیا کہ وہ 2 سال پہلے جیل میں ہی وفات پا چکے ہیں،رحیم یار خان کے دو سگے بھائیوں کو پھانسی چڑھائے جانے کے بعد عدالت عظمی نے بے گناہ قرار دے کر بری کر دیا تھا.اپیل کیلئے 400 روپے نہ ہونے کی وجہ سے چنیوٹ کی 15 سالہ غریب اور بے گناہ رانی بی بی نے 19 سال جیل میں کاٹ دیے۔

اکثر زیر التوا کیسز کی وجہ بڑھتی آبادی امن و امان کی ناقص صورتحال تعلیم کی کمی معاشرتی رویے بتائی جاتی ہے۔ جنکی وجہ سے جرائم میں اضافہ ہو چکا ہے لیکن اسی تناسب سے مزید اقدامات نہیں کیے جارہے اعلی و لوئر کورٹس میں ججز و عملے کی کمی سمیت انتظامی مسائل بھی بہر حال موجود ہیں تو دوسری جانب روایتی نظام کے نقائص سے فائدہ اٹھانے والے بھی موجود ہیں وکلاء اور سائلین کی جانب سے دانستہ تاریخ لینے کارجحان بھی انصاف کی فراہمی میں تاخیر کا باعث ہے حال ہی میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں معروف وکیل اور سابق صدر سپریم کورٹ بار علی احمد کرد کی جانب سے کہا گیا کہ ہر روز سائلین سینے پر زخم لیکر جاتے ہیں اسی طرح انہوں نے عالمی درجہ بندی میں نظام انصاف کے حوالے سے پاکستان کے 126 نمبر پر ہونے کا ذکر بھی کیا یہ انتہا ئی مایوس کن صورتحال ہے سابقہ ادوار میں نظریۂ ضرورت کے تحت دیئے گئے فیصلوں نے بھی عدلیہ کی ساکھ کو مجروح کیا ہے ،پی سی او کیوجہ سے بھی بعض فیصلوں نے وکلاء کو متحد کیا جس کے نتیجے میں 2007ء میں عدلیہ بحالی تحریک نے جہاں نظام انصاف کو مضبوط کیا بار اور بنچ میں فاصلے ختم کیے تو عوام کا اعتماد بھی اس نظام پر بڑھا تھا لیکن بعد ازاں یہ معاملات پھر متنازعہ ہوتے گئے۔ اعلی عدلیہ کو متنازع معاملات پر اعلی سطحی بینچ بنا کر جلد فیصلے کرنے چاہئیں ماضی میں بھی اسطرح کے معاملات سامنے آنے پر کبھی کوئی فیصلہ کن کارروائی نہیں ہوسکی جبکہ مہذب ممالک میں کرپشن کے چارجز پر ججز کے خلاف سنگین کارروائیاں اور سزائیں سامنے آتی رہی ہیں قارئین 2014 ء میں دنیا کے ترقی یافتہ ملک کی ریاست اوہائیوو کی عدالت میں ایک صبح کریسی ہنٹن نامی خاتون جج کو ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کیا گیاکریسی ہنٹن پر الزام تھا کہ اس کے بھائی کے پاس آمدن سے زائد اثاثے تھے اور ان اثاثوں کو بنانے میں اس خاتون جج کے غیر قانونی فیصلوں کا اثر تھا سخت قید بامشقت کے بعد جب کریسی ہنٹن کو عدالت سے واپس لیجایا جا رہا تھا تو کسی امریکی جج نے اسے عدلیہ پر حملہ یا عدلیہ کی توہین جیسا بیانیہ اختیار نہیں کیا۔اسی طرح امریکہ کی ریاست فلوریڈا میں ہی تیس نومبر 2018 ء کو ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس میں فلوریڈا کے ضلعی جج ڈیوڈ کونکنز کو جسم فروشی کے دھندے میں ملوث قریبی عزیز کو شیلٹر دینے کی وجہ سے گرفتار کر لیا گیا یہ ایک ایسی گرفتاری تھی جس نے فلوریڈا کے عدالتی نظام، ججز اوروکلاء کو ہلا کر رکھ دیا عدلیہ اگر چاہتی تو اس واقعے کے خلاف پولیس ڈیپارٹمنٹ کے خلاف مہم چلا کر ڈیوڈ کونکنزکو بے گناہ ثابت کروانے کی کوشش کر سکتی تھی لیکن کو ئی وکیل کو ئی جج اسکی حمایت میں کھڑا نہیں ہوا۔ امریکہ کی ووگا کائونٹی کے جج لینز میسن کو جب 12 ستمبر 2019ء کو بیوی کے قتل کے جرم میں 35 سال کی سزا سنائی گئی تو بھی قاتل جج کو بچانے کے لئے کو ئی وکلاء تحریک سامنے نہیں آئی۔امریکہ کی ریاست نیو یارک رجسٹرڈ کورٹ کی خاتون جج لتیسیا ایستیسیو کو اپنے ذاتی مفاد میں کسی کو دھمکیاں دینے پر نہ صرف برطرف کیا گیا بلکہ 180 دن کی جیل بھی بھگتنا پڑی آسٹریلیا میں ٹریفک کی خلاف ورزی کرنے پر ایک جج کو جیل بھیج دیا جاتا ہے آسٹریلیا میں ہی سپریم کورٹ کے ایک جج لیٹیشیا ایسٹی او کو نشے میں گاڑی چلانے پر گرفتار کرکے اس بنیاد پر جیل بھیج دیا جاتا ہے کہ جج تو ایسے قوانین پر عمل کرواتے ہیں تو اس نے اس کی خلاف ورزی کیسے اور کیوں کی۔دنیا کے 245 ممالک میں سے تمام ترقی یافتہ ممالک میں یہی قوانین ہیں کہ اگر کوئی جج غیر قانونی کام کرے یا غلطی کرے تو اسے عام آدمی سے زیادہ سزا اور قصور وار قرار دیا جاتا ہے۔17 جنوری 2020ء کو امریکی ریاست مشی گن کی ایک جج ٹریسا بریلن کو اپنی طلاق کے کاغذات میں ردو بدل کرنے کے الزام میں نہ صرف 12 گھنٹے میں تحقیقات مکمل کی گئیں بلکہ اگلے ہی دن الزام ثابت ہونے پر جیل بھی بھیج دیا گیا ایک سینئر پولیس آفیسر غلام محمود ڈوگر نے بتایا کہ جب میں کینیڈا میں رہائش پذیر تھا تو پولیس نے ایک شخص کو کسی گھر سے گرفتار کیا جس پر الزام تھا کہ اس نے اپنی بیوی پر تشدد کیا ہے جب پولیس اسے گرفتار کر کے لے جا رہی تھی تو قریب کھڑے ایک شخص نے کہا کیا تمہیں نہیں پتا یہ چیف جسٹس ہے تو گرفتار شخص نے اپنے حمایتی سے گزارش کی کہ ان کو مت بتاؤ کہ میں چیف جسٹس ہوں میں نوکری سے بھی جاؤں گا کیونکہ چیف جسٹس ہوکر کوئی کرائم کرنے پر زیادہ سزا ملتی ہے یہی وہ عوامل ہیں جو کسی بھی ملک میں سزا اور جزا کا تعین کرکے عوام کا عدلیہ پر اعتماد بحال کرتے ہیں اور جرائم میں کمی کا باعث بنتے ہیں۔

You might also like