‏چین میں سیلاب‏Ubermenschپونے دوپاکستان میں ہر سال 10 لاکھ مکانات کی ضرورت ہےایران نے اسرائیل پر ڈرون اور میزائیلوُں سے حملہ کر دیا ہےگوجرانوالہ- سیالکوٹ- وزیر آباد- گجرات اور لالہ موسی، بنا بنا اکنامک زونسیاچن کے محاز پر پاکستان کی فوجپاکستان کے شمالی علاقہ جاتمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےمعاشرےمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےاگر ہمّت ہو تو معزوری کوئی رکاوٹ نہیں ہوتیمیلہ 6 ستمبروہ لمحہ جب 7.4 شدت کے زلزلے نے تائیوان کو ہلا ڈالامہنگائی کی شرح ۲۰% پر آ گئی-اپنی صحت کا خیال رکھیں- سوشل میڈیا سے دور رہیںصدر ارگان کی پارٹی کو ترکی میں بلدیاتی انتخابات میں شکستافغان سرزمین دہشتگردوں کی محفوظ آماجگاہ ہے ؛ فنانشل ٹائمچولستان میں زمینوں کو آباد کرنے کا منصوبہسائنوٹیک سولر پرائیویٹ لمیٹڈ کی پاکستان میں سرمایہ کاریپیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 9 روپے 66 پیسے کا اضافہ –مائع پیٹرولیم گیس( ایل پی جی) کی فی کلو قیمت میں 6 روپے 45 پیسے کمی کردی گئی

چونڈہ – ماہ و سال کے ائینے میں


سیالکوٹ شہر سے ۲۳ کلومیٹر جنوب مشرق کی طرف واقع چونڈہ، تاریخی اعتبار سے اہم ، لہلاتے کھیتوں کے درمیان تقریبا ۲۰ مربع کلومیٹر پر پھیلے ایک ٹیلے پر بنا فصیل نما قصبہ ہے- سیالکوٹ یا پسرور کی طرف سے آنے والوں کو کئی کلومیٹر دور سے دکھائی دینا شروع کر دیتا تھا- شاید یہی اس کی تزویراتی اہمیت تھی کہ یہ اونچائی پر ہونے کی وجہ سی چاروں طرف علاقے پر نظر رکھے ہوئے تھا- یا یہ کہ لیں کہ ایک اھم لنک پوائنٹ اور جیتا جاگتا ابزرویشن پوائنٹ تھا- چونڈہ سے مشرق ، مغرب اور جنوب چاروں طرف بڑھا جا سکتا تھا-یہی اھمیت بھارتی سپاہ کو ۱۹۶۵ میں ادھر کھینچ لائی اور ہزیمت کا باعث بنی- چونڈہ کے جنوب میں ریلوے اسٹیشن کے سامنے ایک پرانا ریسٹ ہاؤس اور اس کے شمال کی سمت سفیدے کے درختوں کاجھنڈ اور آگے گراؤنڈ تک سر سبز و شاداب کھیت ہوا کرتے تھے جو ریلوے اسٹیشن کے حسن کا جلا بخشتے تھے- اس ریلوے اسٹیشن میں کچھ تو تھا جو بہت مختلف تھا، شاید وقفے وقفے سے آتی ہارن بجاتی ٹرینوں کی آمدورفت- یا آبادی سے بہت دور، ویرانگی -یہ واحد ریلوے لائن تھی جو سیالکوٹ کو نارووال اور لاہور سے ملاتی تھی-


چوک شہیداں کے عین شمال کی طرف جہاں اب یادگار ہے وہاں سے ایک اینٹوں کی پگڈنڈی عیدگاہ کر سامنے سے گزرتی ہوئی اینٹوں کے بھٹے تک جاتی تھی – چونڈہ ظفروال روڈ کے پار وسیع ذرخیز رقبہ تھا جو ذیلداروں کے میٹھے پانی کے کنویں سے شروع ہو کر کھیتوں کے درمیان سے مجید والی تک جاتا تھا- ریلوے پھاٹک کے آ ر پار ٹالی اور کیکر کے درختوں کی لائن دور بڈیانہ اور شمال کی طرف گاؤں کالے والی اور مشرق کی طرف ظفر وال تک جاتی تھی- یہ درخت ہریالی اور خوبصورتی میں چار چاند لگاتے – چونڈہ کے میں اور ارد گرد بہت زیادہ پرانے بوڑھ اور برگد کے درخت تھے- یہ سینکڑوں سال پرانے درخت آج بھی موجود ہیں – ہندوؤں کے چار سے پانچ مندر بھی تھے جو ۱۹۴۷ کے بعد گرائے نہیں گئے اور آج بھی موجود ہیں- چونڈہ کے مشرق اور جنوب ( پسرور) کی طرف دور دور تک سبز کھیتوں کی چادر بچھی ہوئی ہے- ٹیوب ویل اور ڈیرے زمینداروں کے فارم ھاؤسز ہیں آبادی کے بڑھنے سے شہر پھیلا ضرور ہے لیکن ابھی بھی دور دور تک سبزہ اور ہریالی ہے- شہر کی واحد عید گاہ کے جنوب مغربی طرف جہاں اب ایکسچیج ہے یہاں ایک بہت بڑا باقاعدہ اینٹیوں کی سیڑھیوں سے بنا تالاب تھا- گلی آبشار کی جنوبی سمت ایک بہت بڑا پہاڑ نما ٹیلہ تھا جو کہ بہت اونچا ہونے کی وجہ سے ایک بہترین ابزرویشن پوائنٹ تھا-جس پر ۱۹۶۵ کی جنگ کی یادگار بھی بنی تھی- یہ ٹیلہ مشرق میں سبزی والے اڈے، جنوب میں پرانے ڈاکخانے تک پھیلا ہوا تھا- ریلوے اسٹیشن کے قریب پرانے پرائمری سکول کے سامنے ، پھر امام بارگاہ چوکے کی طرف بڑے بڑے تالاب تھے- قصبے کے شمال میں بس سٹینڈ کے ساتھ کلیانہ ایک تالاب ہی نہیں، فش فارم، سیلابی پانی کے ذخیرہ کرنے کا ڈیم اور پورے قصبے کا مرکز نگاہ تفریحی مقام تھا- کلیانے کی چھوٹی پلی سیلابی ریلے میں بچوں کے پانی میں جمپ کرنے کے علاوہ رات کے وقت سگریٹ نوشوں کی پسندیدہ جگہ تھی-


یہ ایک گھروں پر مشتمل عام قصبہ نہیں بلکہ بہت سے تاریخی ، جغرافیائی، تقافتی اور تعمیرات کے حوالے سے منفرد قصبہ ہے جو کہ وقت کی رفتار کے سامنے اہستہ اہستہ باقی دنیا کے ساتھ تغیر کے مراحل سے گزر رہا ہے- قصبے میں ادبی سرگرمیوں کے لئے نوجوانوں کے لئے لائیبریری اور یادگار شہداء کا ذکر بہت ضروری ہے جو اس قصبے کی تاریخی روایت کو برقرار رکھے ہوئے ہے-
۰-۰-۰-۰-۰-
عتیق الرحمان

You might also like