‏عوامی اضطراب- کیا وجہ؟‏چین میں سیلاب‏Ubermenschپونے دوپاکستان میں ہر سال 10 لاکھ مکانات کی ضرورت ہےایران نے اسرائیل پر ڈرون اور میزائیلوُں سے حملہ کر دیا ہےگوجرانوالہ- سیالکوٹ- وزیر آباد- گجرات اور لالہ موسی، بنا بنا اکنامک زونسیاچن کے محاز پر پاکستان کی فوجپاکستان کے شمالی علاقہ جاتمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےمعاشرےمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےاگر ہمّت ہو تو معزوری کوئی رکاوٹ نہیں ہوتیمیلہ 6 ستمبروہ لمحہ جب 7.4 شدت کے زلزلے نے تائیوان کو ہلا ڈالامہنگائی کی شرح ۲۰% پر آ گئی-اپنی صحت کا خیال رکھیں- سوشل میڈیا سے دور رہیںصدر ارگان کی پارٹی کو ترکی میں بلدیاتی انتخابات میں شکستافغان سرزمین دہشتگردوں کی محفوظ آماجگاہ ہے ؛ فنانشل ٹائمچولستان میں زمینوں کو آباد کرنے کا منصوبہسائنوٹیک سولر پرائیویٹ لمیٹڈ کی پاکستان میں سرمایہ کاریپیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 9 روپے 66 پیسے کا اضافہ –

پہنچے ترے حضور!

قطع نظر ان روایات کے جدہ کی تاریخ 2500 سال پر محیط ہے۔ قوادا قبیلے Quada’s Tribe نے اس کی بنیاد رکھی۔ مچھیروں نے اپنی سہولت کی خاطر یہاں چند جھونپڑے بنا لئے تھے۔ چھ سو سال بعد حضرت عثمانؓ کی دور رس نگاہ اس قصبے پر پڑی اور انہوں نے اس کو بندرگاہ کیلئے موزوں پایا۔ بعد میں اسے بلاد الکانسل، کہا جانے لگا جس کے معنی سفارتکاروں کا شہر ہیں۔ پرتکیزوں کے ڈر سے سولہویں صدی میں عثمانیوں نے اس کے اردگرد ایک مضبوط فصیل کھڑی کر دی اور آنے جانے کیلئے صرف چار راستے مقرر کئے۔ باب شریف جنوب کی سمت کھلتا تھا۔ مشرق میں باب مکہ تھا۔ شمال میں باب مدینہ تھا اور غربی دروازہ سے بحر احمر کا نظارہ کیا جا سکتا تھا۔ 1900 میں ایک نیا دروازہ باب جدید بنایا گیا جو خاصا چوڑا تھا اور اس میں ایک کار بآسانی گزر سکتی تھی۔1915ء تک جدہ ترکوں کے زیراثر رہا۔ دیواریں بھی اس حالت میں رہیں۔ ترکوں کے فن تعمیر کے خوبصورت نمونے جگہ جگہ ملتے ہیں۔ شہر کے مرکز میں تجارتی منڈی تھی جسے سوق Souq کہا جاتا ہے۔بڑاروح پرور منظر تھا۔ بہت ولولہ انگیز نظارہ تھا۔ حیران کن ماحول تھا۔

چشم کائنات نے ایسا منظر پہلے کبھی نہ دیکھا ہوگا۔ فرشتوں کو پہلی مرتبہ احساس ہوا ہوگا کہ ان کی عبادت میں کوئی کمی رہ گئی ہے۔ لاکھوں کے ہجوم میں کوئی ابرانین پرشین نہیں تھا۔ تورانی ترک نہیں تھا، بیمیٹک بربر نہیں تھا۔ عرب نہیں تھا۔ سب مسلمان تھے۔ ایک امت تھی جس کو نبی آخرالزمانؐ نے وحدت کی لڑی میں پرو دیا تھا۔ ایک ہی کتاب کا ورد ہو رہا تھا، ایک ہی رب کو پکارا جا رہا تھا، ایک ہی حکم کی تعمیل ہو رہی تھی۔ وہ ایک لفظ جو چودہ سو سال پہلے دہن مبارک سے نکلا تھا اربوں کانوں میں رس گھول رہا تھا۔ حرز جاں بن گیا تھا۔ لبیک اللھم لبیک۔ بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے اس لفظ کے سحر میں گرفتار تھے۔ روح معانی سے سرشار تھے۔ وہ ایک لفظ جو گلے سے نہیں بلکہ دل کے ہر گوشے سے نکل رہا تھا جو وجود کے ذرے ذرے سے پھوٹ رہا تھا۔ جو حاصل زندگی تھا۔ مرکز تمنا تھا، جس نے بتان رنگ و خوں کو پاش پاش کر دیا تھا۔ اس قدر عظیم اجتماع، اتنا خشوح و خضوع گہرا انہماک۔ انسانی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔سائنس نے بڑی ترقی کر لی ہے۔ انسان ستاروں پر کمندیں ڈال رہا ہے۔ زندگی کی نت نئی تاویلیں پیش کی جا رہی ہیں۔ فلسفے نے تجسس و تحقیق کی آڑ میں تشکیک کے پہاڑ کھڑے کر دیئے ہیں، لیکن عجز و عقیدت کے ان قافلوں کو کوئی چیز روک نہیں سکی۔ شک کے پہاڑ سمٹ کر رائی بن گئے۔ ستاروں پر پہنچ کر بھی جب انسان اپنے اردگرد نگاہ ڈالے گا تو ایک ہی لفظ اس کی زبان سے نکلے گا

دوسرا شوط ختم ہوا تو امان اللہ کہنے لگا۔ ’’شاہ صاحب حجر اسود کو بوسہ دیا جائے اور کعبہ کی دیواروں کو مس کریں۔‘‘ اس قدر ہجوم میں تو چلنا بھی دشوار ہے وہاں تک کیسے پہنچ پائیں گے۔ ’’آپ اللہ اکبر کا نعرہ مار کر میرے پیچھے پیچھے چلیں، ہر مشکل آسان ہو جائے گی۔ ہم نے ایک ساتھ زور سے اللہ اکبر کہا تو ایسے محسوس ہوا جیسے لاکھوں کا مجمع چھٹ رہا ہے اور خودبخود راستہ نکل رہا ہے۔ دیوار کعبہ کیساتھ کئی جواں سال اور جواں ہمت حبشی لپٹے زار و قطار رو رہے تھے۔ آنسوئوں کی ایک جھڑی تھی جس نے دیوار کو نم کر دیا تھا۔ ان کے عزم اور ڈیل ڈول کو دیکھ کر پستہ قد شرطے بھی کچھ دب سے گئے تھے اور چھڑی کی بجائے زبان کا استعمال کرتے ہوئے شرک۔ شرک پکار رہے تھے، لیکن اس کا کوئی خاص اثر نہیں ہو رہا۔ عشق نے کیا کبھی عقل کی بات سنی ہے؟ پھر عقل بھی وہ جو مدقوق ہو، محدود ہو، مفلوج ہو، مسدود ہو اور محروم دو عالم ہو۔ہم بھی ان سیاہ فام لوگوں میں شامل ہو گئے جن کے رنگ کالے تھے، لیکن من روشن تھا۔ جن کے پسینے سے اٹھتی ہوئی مہک تمام عرب خوشبوئوں پر حاوی تھی۔ جو شرعی امور سے شاید ناواقف تھے، لیکن ان کی عقیدت، محبت اور وارفتگی حاصل شرع تھی، زندگی میں پہلی مرتبہ دیوار کعبہ کو مس کرنا کیسا لگتا ہے۔ سنگ اسود کو بوسہ دینے میں کیا لطف ہے۔ غلاف کعبہ کو سر آنکھوں پر لگانا کونسی کیفیت سے دوچار کرتا ہے۔ حیرتیں، حسرتیں، عقیدتیں، محبتیں اور لذتیں سب ایک نقطے پر یکجا ہو جاتی ہیں۔ وہ چند لمحے برسوں پر کیونکر حاوی ہو جاتے ہیں۔ ان لمحوں میں کوئی دعا یاد نہیں رہتی۔ کوئی فکر دامن گیر نہیں ہوتی۔ کوئی اندیشہ وجود کو کچوکے نہیں دیتا۔ بجز اشک ندامت انسان کے پاس کچھ نہیں ہوتا۔اس ایک لمس نے سب تھکن دور کر دی تھی۔ مضمل قویٰ کو توانائی بخش دی تھی۔ پژمردہ چہروں کو تازگی عطا کر دی تھی۔ نیند سے بوجھل آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچا دی تھی۔ (جاری) 

You might also like