پاکستان میں ہر سال 10 لاکھ مکانات کی ضرورت ہےایران نے اسرائیل پر ڈرون اور میزائیلوُں سے حملہ کر دیا ہےگوجرانوالہ- سیالکوٹ- وزیر آباد- گجرات اور لالہ موسی، بنا بنا اکنامک زونسیاچن کے محاز پر پاکستان کی فوجپاکستان کے شمالی علاقہ جاتمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےمعاشرےمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےاگر ہمّت ہو تو معزوری کوئی رکاوٹ نہیں ہوتیمیلہ 6 ستمبروہ لمحہ جب 7.4 شدت کے زلزلے نے تائیوان کو ہلا ڈالامہنگائی کی شرح ۲۰% پر آ گئی-اپنی صحت کا خیال رکھیں- سوشل میڈیا سے دور رہیںصدر ارگان کی پارٹی کو ترکی میں بلدیاتی انتخابات میں شکستافغان سرزمین دہشتگردوں کی محفوظ آماجگاہ ہے ؛ فنانشل ٹائمچولستان میں زمینوں کو آباد کرنے کا منصوبہسائنوٹیک سولر پرائیویٹ لمیٹڈ کی پاکستان میں سرمایہ کاریپیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 9 روپے 66 پیسے کا اضافہ –مائع پیٹرولیم گیس( ایل پی جی) کی فی کلو قیمت میں 6 روپے 45 پیسے کمی کردی گئیبھارت میں پانی کی شدید قلّت؛ موسم گرما میں حالات مزید خراب ھونگےغزہ میں پھنسے دس لاکھ سے زائد لوگ سمندر کا نمکین پانی پینے پر مجبورغزہغزہ میں پھنسے دس لاکھ سے زائد لوگ سمندر کا نمکین پانی پینے پر مجبورامریکی کی ایران کے بیلسٹک میزائل، جوہری اور دفاعی پروگراموں کو سپورٹ کرنے والے پروکیورمنٹ نیٹ ورکس پر نئی پابندیاں عائد کر دی

ایٹمی پاکستان: خدشات و امکانات

وزیراعظم پاکستان کے اس بیان سے کہ اگر بھارت اپنے ایٹمی ہتھیاروں سے دستبردار ہوجائے تو پاکستان بھی تقلید کریگا، میں اتفاق نہیں کرتا، لگتا ہے وزیراعظم کی زبان پھسل گئی تھی۔ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت ’بھارت منسلک‘ نہیں ہونی چاہیے بلکہ پاکستان کو ایک ’خودمختار ایٹمی پالیسی‘ پر گامزن رہنا چاہیے کیونکہ اس خطہ میں دیگر ایٹمی ممالک جو سلامتی کونسل کے مستقل رکن ہیں کبھی اس صلاحیت سے دستبردار نہیں ہوں گے، اس خطہ میں بالخصوص اور دنیا میں بالعموم ایٹمی جنگ کا خطرہ منڈلاتا رہے گا۔ البتہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں یہ تبدیلی آنی چاہیے کہ پاکستان علاقائی اور عالمی سطح پر ایک ایٹمی ملک کے شایان شان رویہ اور طرزعمل اختیار کرے۔ بھیک کیلئے جو کشکول ہم نے اٹھایا ہوا ہے  وہ ایک ایٹمی ملک کے شایان شان نہیں ہے، اس کشکول سے چھٹکارا پانا ہوگا۔ ایسی سازشی تھیوریوں کا کہ بتدریج پاکستان میں مقبول سیاسی قیادت کے خاتمہ اور سخت ترین معاشی تنزلی یا جکڑ بندی کرکے پاکستان کو اسکے ایٹمی اثاثوں سے محروم کیا جاسکتا ہے، یا سو بلین ڈالر کے قرضے معاف کرنے کا جھانسہ دے کر اسے ایٹمی صلاحیت سے دستبردار ہونے پر مجبور یا آمادہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ سوائے خام خیالی کے اور کچھ نہیں۔ اگر اس میں کچھ حقیقت ہو بھی تو ایک اہم بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کا تحفظ کوئی ایک فرد یا راہنما، یا کمانڈ اینڈ کنٹرول کا کوئی ادارہ نہیں کرتا ، سب ریاست کے ملازم ہیں۔ صرف پاکستان کے عوام اسکے تحفظ کے ذمہ دار ہیں، کوئی اور پاکستانی عوام سے ان کا یہ حق نہیں چھین سکتا۔ عوام  اسکے تحفظ کیلئے کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں رکھیں گے۔ 

ایک سازشی تھیوری یہ بھی ہے کہ پاکستان کو سیاسی اور معاشی طور پر کمزور کرنے کے بعد اسے ایٹمی صلاحیت سے محروم کردیا جائے اور پھر آسانی سے پاکستان اندرونی خلفشار کا شکار ہوکر معدوم ہوجائیگا، یا عراق ، یمن، لیبیا، شام، یا دیگر کمزور افریقی ممالک کی طرح شکست و ریخت کا شکار ہوکر بمشکل اپنی سانسوں کی ڈور کو سنبھالنے کی جدوجہد میں لگ جائیگا۔ ایسا سوچنا بھی دیوانے کا خواب ہے۔ ایک ایٹمی ملک کا یوں کمزور اور معدوم ہونا باقی ایٹمی ممالک کیلئے چنداں کوئی اچھی خبر نہیں ہوگی۔ عالمی طاقتیں اور ادارے ایک ایٹمی ملک کی اس طرح پسپائی کو قبول نہیں کرینگے، کیونکہ یہ ان ممالک کیلئے بھی خطرے کی ایک گھنٹی ہوگی۔ میرے نزدیک ایسا نہیں ہونے دیا جائیگا، عالمی مالیاتی ادارے جلد حرکت میں آجائینگے، بالکل اس طرح جیسا انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں آپ ڈا کٹرز اور سرجنز کو اپنے پیرا میڈیکل سٹاف کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ عالمی ادارے اس طرح پاکستان کو بچانے کیلئے نہیں کرینگے بلکہ خود کو بچانے لیے کرینگے۔ آخر انکی بھی تو ناک ہے جو کٹنی نہیں چاہیے۔

ایک اور سازشی تھیوری کا ذکر کرتا چلوں۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا سہرا امریکی صدر رونلڈ ریگن کے سر ہے جنہوں نے سرد جنگ کے ایسے دور میں جب سوویٹ یونین افغانستان پر قبضہ کے بعد پاکستان سے ہوتے ہوئے گرم پانیوں تک پہنچے کیلئے بیتاب تھا تو اس بدمست ریچھ کو روکنے کیلئے ایٹمی پاکستان ناگزیر سمجھا اور پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کی طرف پیش قدمی پر اپنی آنکھیں بند کرلیں بلکہ سید مشاہد حسین کے انداز کیمطابق پاکستان کو آنکھ بھی ماردی کے لگے رہو۔ صرف دکھاوے کی معاشی اور تجارتی پابندیوں کے علاوہ امریکہ نے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا کہ جس سے پاکستان کو ایٹمی ملک ہونے سے روکا جاسکتا جیسا کہ امریکہ نے شام، لیبیا، عراق اور ایران کو روکا ہے۔ اس میں اسرائیل نے اسکے ہرکارے کا کردار ادا کیا۔ میرے نزدیک اگر اس سازی تھیوری کو حرف بہ حرف سچ بھی مان لیا جائے کہ ایک جنوبی ایشیا کے اس خطہ میں ایٹمی پاکستان امریکہ کی اشد ضرورت تھا۔ تو ہوگا، مجھے اس بات سے کوئی غرض نہیں، مگر میرے نزدیک اب ایک ایٹمی پاکستان خود پاکستان کے مفاد میں ہے اور پاکستان کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ پاکستان کا آدھا کشمیر اور آدھا پانی بھارت کے قبضہ میں ہے، مگر پاکستان قائم دائم ہے۔ یہ دولخت ضرور ہوا ہے مگر قائم ہے، اگر پاکستان ایٹمی ملک ہوتا تو اسے دولخت بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔خدا کیلئے عقل کے ناخن لیں اور ’ایٹمی صلاحیت کے بغیر پاکستان‘ جیسی بات پر بات کرنا تو دور کی بات ایسا سوچیں بھی نا۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپکے بچے اور پھر انکے بچے دنیا میں اپنا سر بلند کرکے عزت اور وقار کے ساتھ جئیں تو ایسا سوچیں بھی مت کہ ہم غیر ایٹمی ہوجائیں اور ہمارے دشمن ہمارا وہ حال کردیں جو ململ کے سفید کپڑے کا کانٹوں بھری جھاڑیاں کرسکتی ہیں۔ اپنے ایٹمی پروگرام کے ساتھ وہ سلوک جو آپ نے ایٹمی سائنسدانوں کے ساتھ روا رکھا، ایسا ہرگز ہرگز نا سوچیں۔ 

مجھے ایسے سیاسی رہنماؤں اور دانشوروں پر حیرت ہوتی ہے جو بے پر کی اڑاتے رہتے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر پرویز ہود بھائی جیسے دانشور سرے سے ہی پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے خلاف ہیں۔ اور کوئی ٹھوس دلیل بھی نہیں دیتے، سوائے اس بات کہ جتنا پیسہ ایٹم بم بنانے پر لگا اتنے پیسوں میں اتنے ہزار سکول اور اتنے سو ہسپتال بن سکتے تھے۔ جن جنگ سے تباہ شدہ ممالک کا میں نے ذکر کیا ہے انکے سکول، انکے ہسپتال اور ان کی یونیورسٹیاں کسی بھی مغربی ملک سے کم نہیں تھیں۔ لیکن آج وہ کھنڈر کا ڈھیر بن چکی ہیں۔ دوسری دلیل یہ کہ کیا باقی آٹھ ایٹمی ملکوں نے سکول اور ہسپتال نہیں بنائے؟ دنیا کی سب سے بڑی ایٹمی صلاحیت کے حامل ملک امریکہ میں دنیا کے سب سے بہترین تعلیمی ادارے اور ہسپتال موجود ہیں لیکن یہاں تک پہنچنے کیلئے انکے بڑوں نے قربانیاں دی ہیں، اور اپنے خون جگر سے چمن کی آبیاری کی ہے۔

You might also like