‏عوامی اضطراب- کیا وجہ؟‏چین میں سیلاب‏Ubermenschپونے دوپاکستان میں ہر سال 10 لاکھ مکانات کی ضرورت ہےایران نے اسرائیل پر ڈرون اور میزائیلوُں سے حملہ کر دیا ہےگوجرانوالہ- سیالکوٹ- وزیر آباد- گجرات اور لالہ موسی، بنا بنا اکنامک زونسیاچن کے محاز پر پاکستان کی فوجپاکستان کے شمالی علاقہ جاتمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےمعاشرےمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےاگر ہمّت ہو تو معزوری کوئی رکاوٹ نہیں ہوتیمیلہ 6 ستمبروہ لمحہ جب 7.4 شدت کے زلزلے نے تائیوان کو ہلا ڈالامہنگائی کی شرح ۲۰% پر آ گئی-اپنی صحت کا خیال رکھیں- سوشل میڈیا سے دور رہیںصدر ارگان کی پارٹی کو ترکی میں بلدیاتی انتخابات میں شکستافغان سرزمین دہشتگردوں کی محفوظ آماجگاہ ہے ؛ فنانشل ٹائمچولستان میں زمینوں کو آباد کرنے کا منصوبہسائنوٹیک سولر پرائیویٹ لمیٹڈ کی پاکستان میں سرمایہ کاریپیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 9 روپے 66 پیسے کا اضافہ –

لاہور کی آلودگی، مہنگی گیس اور بھارتی کسان!!!!

نوائے وقت میں حسنین جاوید کالم لکھتے تھے۔ وہ جب تک زندہ رہے ان کا کالم "لاہور سے لاہور تک” شائع ہوتا رہا۔ ایک مرتبہ کسی نے پوچھا حسنین صاحب یہ "لاہور سے لاہور تک” کے پیچھے کیا سوچ ہے۔ مرحوم حسنین جاوید کا جواب تھا کہ میں جہاں بھی جاؤں واپسی لاہور ہی ہوتی ہے۔ یہ میری لاہور سے محبت ہے، لاہور اپنی طرف کھینچتا ہے۔ بڑے بڑے شعراء ، ادیبوں اور مصنفوں نے لاہور سے اپنی محبت کا نقشہ بہت اپنائیت کے ساتھ کھینچا ہے۔ اس میں کچھ شک بھی نہیں کہ لاہور ایک جادوئی شہر ہے لیکن آلودگی نے لاہور کے حسن کو گہنا دیا ہے۔ یہ وہ لاہور ہے جہاں اس موسم میں لاہوری باغات کا رخ کرتے تھے، باغات بھرے ہوتے تھے لوگ اس موسم سے لطف اندوز ہوتے تھے لیکن ان دنوں لوگ منہ لپیٹے پھرتے ہیں شہر اس حد تک آلودہ ہو چکا ہے کہ سانس لینا دشوار ہے۔ باغات میں جانا، میٹھی میٹھی دھوپ سے لطف اندوز ہونا تو دور کی بات ہے اب تو گھر سے نکلتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے کیونکہ فضا میں اتنی آلودگی ہے کہ نئے نئے منفی ریکارڈ لاہور کے نام ہو رہے ہیں، جو شہر اپنی میزبانی، لذیذ کھانوں، باغات اور زندہ دل انسانوں کی وجہ سے پہچانا جاتا تھا آج آلودگی میں سرفہرست نظر آتا ہے۔ یہ آلودگی لاہور میں پیدا ہونے، یہاں اپنا بچپن، لڑکپن اور جوانی گذارنے والوں کے چہروں کو بھی آلودہ کر رہی ہے۔ ہر لاہوری کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے لاہور کو اس آلودگی سے پاک کرنے کے لیے کام کرے۔ اگر کوئی بھی لاہوری اس آلودگی کو اپنے چہرے کی آلودگی نہیں سمجھتا تو پھر اسے لاہوری کہلوانے کا بھی کوئی حق نہیں ہے۔ اپنی مٹی سے محبت یہی ہے کہ اس مٹی کو دیکھ کر لوگ رشک کریں۔ یہ لاہور تو وہ تاریخی ورثہ ہے جسے سنبھالنا قومی فریضہ ہے۔ یہ ایسا تاریخی شہر ہے کہ لوگ لاہور سے نکل گئے لیکن ان کے اندر سے لاہور نہیں نکلا حسنین جاوید مرحوم بھی انہی لوگوں میں شامل تھے۔ جب میں اپنے شہر سے وابستگی پر لکھ رہا ہوں تو برادرم حسن نثار بھی یاد آ رہے ہیں کیونکہ ان کے اندر کا لائلپوری آج بھی زندہ ہے۔ وہ لاہور میں رہتے ہیں لیکن ان کا دل لائلپور کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ وہ اسے آج فیصل آباد نہیں لائلپور ہی کہتے ہیں یعنی وہ اپنے شہر "لوائیل” ہیں۔ ہمیں اپنے شہروں سے ایسی وفاداری نبھانے کی ضرورت ہے۔ زندہ دلوں کا شہر تاریخی ورثہ ہے۔ یہ شہر ہمارے بزرگوں کی امانت ہے اگر اس کے حسن میں کمی آتی ہے تو اسے امانت میں خیانت سمجھا جائے گا۔

گذشتہ روز بھی آلودگی میں لاہور لیڈ کرتا رہا۔ایئر کوالٹی انڈیکس کے مطابق لاہور کی فضا انتہائی آلودہ تھی جہاں پرٹیکیولیٹ میٹرز کی تعداد پانچ سو سولہ تک جا پہنچی ہے۔ دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں کراچی چھٹے نمبر پر ہے اور یہاں پرٹیکیولیٹ میٹرز کی تعداد ایک سو چوہتر ریکارڈ کی گئی ہے۔درجہ بندی کے مطابق  ایک سو اکاون سے دو سو درجے تک آلودگی مضر صحت ہے دو سو ایک سے تین سو درجے تک آلودگی انتہائی مضر صحت ہے جب کہ تین سو ایک سے زائد درجہِ خطرناک آلودگی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ  صورتحال لمحہ فکریہ ہے بدقسمتی سے ہم نے آلودگی سے بچنے کیلئے کبھی سوچا ہی نہیں ہے۔ اس حوالے سے کوئی کام نہیں کیا گیا۔ آج ملک کے دو بڑے شہر آلودگی میں نمایاں نظر آرہے ہیں اور یہ ہمارے لیے باعث شرم ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں کو اس بڑے خطرے کا سامنا ہے اور دونوں ہی اس اہم ترین مسئلے کو نظر انداز کر رہے ہیں۔دنیا کے آلودہ شہروں کی فہرست میں دہلی دوسرے، ویتنام کا شہرہانوئی تیسرے نمبر پر ہے۔

ایئر کوالٹی انڈیکس کے مطابق دہلی کی فضا میں پرٹیکیولیٹ میٹرز کی تعداد ایک سو اٹھانوے جبکہ ہانوئی کی فضا میں یہ تعداد ایک سو پچاسی ریکارڈ کی گئی ہے۔ لاہور ہائیکورٹ میں سموگ کی روک تھام کے اقدامات کے حوالے سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی اس سماعت کے دوران پیش ہونے والے حقائق بھی حیران کن ہیں کیونکہ سرکاری ادارے اس حوالے سے کوئی بھی بہتر کام کرنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آتے ہیں۔

سردیاں آ رہی ہیں اور گیس جا رہی ہے، گرمیاں آتی ہیں تو بجلی چلی جاتی ہے، کوئی وباء پھیلتی ہے تو ادویات کی قلت پیدا ہو جاتی ہے، رمضان المبارک کا آغاز ہوتا ہے تو اشیاء خوردونوش کی قیمتیں آسمان پر پہنچ جاتی ہیں۔ اب سردیاں شروع ہو رہی ہیں تو گیس کی قلت کا سامنا ہے۔ چینی، آٹا، اشیاء خوردونوش اور ادویات کے بعد اب حکومت کو گیس بحران کا سامنا ہے مجھے یقین ہے حکومت کو اس بحران میں بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حکومت کے پاس نہ تو کوئی ویژن ہے نہ وزراء کو عوامی مسائل کا ادراک ہے یہی وجہ ہے کہ تین سال میں عام آدمی کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکا۔ اب گیس کی صورت حال میں ایک مرتبہ پھر سرد موسم میں عوامی مشکلات میں اضافہ ہو گا۔ گیس کی لوڈ شیڈنگ شروع ہو چکی ہے۔ پنجاب کو ایل این جی فراہم کرنا پڑے گی۔ گیس کی قلت کی وجہ سے  جلانے والی لکڑی کی قیمت میں بھی فی من تین سو پچاس روپے تک کا اضافہ ہو چکا ہے۔ گیس کی قلت اور لوڈ شیڈنگ روپے میں فروخت ہونے والی لکڑی اب نو سو نوے روپے فی من فروخت ہو رہی ہے۔گلگت بلتستان میں چند روز قبل تک سترہ سو روپے میں ملنے والا گھریلو سلینڈر کی قیمت تین ہزار روپے تک جا پہنچی ہے۔خیبرپختونخوا میں گیس لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے شہریوں کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے جبکہ بعض علاقوں میں چوبیس گھنٹوں میں صرف تین گھنٹے گیس فراہم کی جا رہی ہے اس دوران بھی پریشر نہایت کم ہوتا ہے۔

دوسری طرف بھارت میں نریندرا مودی نے کسانوں کے طویل احتجاج کے بعد ہتھیار ڈالتے ہوئے زرعی قوانین واپس لیلئے ہیں۔ بھارت میں نریندرا مودی کی طرف سے زرعی قوانین میں تبدیلی کے بعد پنجاب، ہریانہ اور اتر پردیش سمیت مختلف علاقوں میں کسان ایک سال سے احتجاج کر رہے تھے۔ اس طویل احتجاج میں مودی سرکار نے کسانوں کو منتشر کرنے اور دبانے کے لیے ہر حربہ اختیار کیا۔ طاقت استعمال کی، تشدد کیا لیکن کسان اپنے مطالبات سے پیچھے نہیں ہٹے اور اپنے مطالبات کیلئے ڈٹے رہے ۔ کسانوں کے طویل احتجاج سے تنگ آ کر نریندرا مودی کی حکومت نے گھٹنے ٹیک دیے ۔  وزیراعظم نریندرا مودی نے مختلف ریاستوں میں احتجاج پر بیٹھے کسانوں کو احتجاج ختم کرنے کی اپیل کرتے ہوئے زرعی قوانین کی منسوخی کا فیصلہ کیا ہے۔ کسانوں نے اپنے احتجاج سے ثابت کیا ہے کہ اگر متحد ہو کر مشترکہ مفادات کے تحت کام کیا جائے تو کامیابی مل سکتی ہے۔ ایک ہماری اپوزیشن ہے وہ تین سال سے حکومت کے غلط فیصلوں اور عام آدمی پر بوجھ بننے والی پالیسیوں کیخلاف کسی قسم کی مزاحمت نہیں کر سکی۔ نریندرا مودی کی طرف سے متنازعہ زرعی قوانین کی واپسی کو بھی سیاسی فیصلہ قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ جہاں جہاں احتجاج ہو رہا تھا وہاں چند ماہ بعد انتخابات ہو رہے ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم نے کسانوں کے احتجاج پر متنازع قوانین واپس لئے ہیں جب کہ دوسری طرف مقبوضہ کشمیر کے لاکھوں مسلمانوں کے گھروں کو جیل میں بدل دیا ہے لیکن کشمیریوں کے حوالے سے بھارتی حکومت کی مسلم کش پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آ رہی۔ اس معاملے پر دنیا کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے۔

You might also like