Leadership Dilemmaنیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد میں پاک برطانیہ علاقائی استحکام کے موضوع پر چھٹی (6)کانفرنس منعقد ہوئیچین کے بڑے شہر اپنے ہی وزن سے دب رھے ہیںTransformation of Political Conflictوفاقی کابینہ نے نجی یونیورسٹیوں اور دیگر تمام اداروں کیلئے لفظ نیشنل استعمال کرنے پر پابندی عائد کردی‏عوامی اضطراب- کیا وجہ؟‏چین میں سیلاب‏Ubermenschپونے دوپاکستان میں ہر سال 10 لاکھ مکانات کی ضرورت ہےایران نے اسرائیل پر ڈرون اور میزائیلوُں سے حملہ کر دیا ہےگوجرانوالہ- سیالکوٹ- وزیر آباد- گجرات اور لالہ موسی، بنا بنا اکنامک زونسیاچن کے محاز پر پاکستان کی فوجپاکستان کے شمالی علاقہ جاتمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےمعاشرےمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےاگر ہمّت ہو تو معزوری کوئی رکاوٹ نہیں ہوتیمیلہ 6 ستمبروہ لمحہ جب 7.4 شدت کے زلزلے نے تائیوان کو ہلا ڈالامہنگائی کی شرح ۲۰% پر آ گئی-اپنی صحت کا خیال رکھیں- سوشل میڈیا سے دور رہیں

یاد ماضی ۔ Nostalgia

عتیق الرحمان

مجھے لڑکپن بہت یاد آتا ھے۔وہ کیکر، ٹالی، پیپل اور جامن کے درخت اور سخت سردیوں میں صبح کے اجالے میں لپٹی گہری دھند۔  وہ کڑکتی دوپہر میں کھیلنا کودنا یاد آتا ھے،  وہ کھلے آسمان کے نیچے گھر کے چھت پر سونے سے پہلے تاروں کو گننا اور گنتے گنتے سو جانا یاد  آتا ھے۔

اپنے چھوٹے سے قصبے چونڈہ کے اردگرد وہ وسیع فصلوں کی ھریالی۔ گھر کے صحن میں پانی کا نلکا ، اور ساتھ ھی ادریک کا درخت، سرے شام کھانےکے لئے سلگائی آگ کا گھروں سے آسمان کی طرف نکلتا دھواں اور کھانے کی مہک  ۔اونچی نیچی گلیوں کے اندر سے اٹھنے والی سلن جیسی باس ، ، اینٹوں کے بھٹے کے پاس ٹھنڈے میٹھے پانی کا کنواں، ذھن سے نکلتے کیوں نھی ھیں۔ کیا تھا اس وقت جو آج نھی ھے۔ پورے قصبے میں ایک بھی موٹر کار نھی تھی۔ شاید ھی کسی کے پاس موٹر سائیکل بھی ھو۔ حلوائیوں کی چندگنی چنی  دکانوں  پر نکلتی تازہ جلیبیاں اور خالص برفی کا ذائقہ کیا خوب تھا۔ اور وہ ۱۹۶۵ کے شہدوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ھر سال سجایا جانے والا میلا مویشیاں جھاں تین دن عید کا سماں ، کبڈی کے مقابلے، بالی جٹی کا تھیٹر ، لکی ایرانی سرکس اور تفریح کے لئے کیا کچھ نھی ھوتا تھا۔

بیری اور ککروں کی چھاؤں میں بچھی چارپائیوں پر گڑ کے شربت سے باراتئوں کی تواضع سے ھوتی ھوئی شادی کی تقریبات میں دیگیں خود پکوا کر ، کراکری اور شامیانے بازار سے کرائے پر لیکر محلے کی گلی یا قریبی کھلے میدان میں لگا کر باراتئوں کی تواضح سے ھوتی ھوئی اب شادی ھالوں تک آ پہنچی۔ رسومات آج بھی ھندوآنہ اور تکلیف دہ حد تک مہنگی لیکن بارات کی آمد سے لیکر جانے تک کے تمام مراحل شادی ھالوں میں سر انجام دیئے جاتے ہیں۔ بنا بنایا کھانا، تمام انتظامات شادی حال کے سپرد ھوتے ہیں ۔ البتہ شادی کے بعد عمر بھر کا پریشراج بھی  دلھا کے سر ھے، اس میں کوئی رتی برابر تبدیلی بھی نھی آ سکی ۔ شادی ھالز  اربوں روپے کا کاروبار اور ایک باقاعدہ صنعت بن چکا ھےلیکن دولہاکے مستقبل کا کوئی باقاعدہ منصوبہ سامنے نھی آ سکا۔

البتہ دودھ میں پانی کی ملاوٹ اس وقت بھی آج کی طرح تھی۔ سفید پوش طبقہ  ( آجکی  مڈل کلاس ) تھوڑی آمدنی سے بھی خوشحال زندگی گزارتا تھا۔ چھوٹا اور موٹا گوشت یکساں دستیاب تھا۔شادی بیاہ پر گھروں کے باھر پکتی زردے کے دیگوں کی خوشبو، آج بھی  نتھنوں میں محسوس ھوتی ھے۔ فروٹ کی دوکان میں سجے آموں کی خوشبو اور صبح صبح سبزی منڈی میں بڑی بڑی مونچھوں والے ٹھیکیدار صاحب کی تیر کی رفتار والی بولی۔ قصبے کے باھر اور اندر اونچے ٹیلے، وسیع قبرستان اور ملنگوں کے آباد ڈھیرے ،کیوں اٹکے ہیں ذھن میں ۔

ھر سال سیلابی ریلے کا بہاؤ، شہر کے ارد گرد پانی ھی پانی اور پھر طغیانی کے بعد کا لطف اٹھانے والا ھجوم – وہ پانی کدھر غائب ھو گیا ھے۔عام دنوں میں لب سڑک نوجوانوں کی تاش کھیلنے میں مشغول چوکڑیاں۔ سپہر کے وقت ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ کھیل کے میدان ( جسے ھم گراؤنڈکہتے تھے) کرکٹ اور فٹ بال اور کہیں بیڈمنٹن کی پریکٹس ۔

اب تو سب کچھ مصنوعی اور  کمرشل ھو چکا ھے۔ جب کوئی چیز کمرشل ھو جاتی ھے تو آڑھتی اسے اصل حالت میں نھی رھنے دیتے۔ منافع کی حرص قدرتی رنگوں کو ایسا تغیر بخشتی ھے کہ اندر سے ساری چاشنی نچوڑ لیتی ھے۔ اب وہ شب و روز ھی نھیں ، زمینی نقشہ بھی تبدیل ھو چکا ھے۔ اب تو دنیا میں صرف موبائل، شاپنگ مالز اور رئیل اسٹیٹ رھ گیا ھے۔

میک لوھان ایک امریکی فلاسفر تھا اس کے مطابق نئی مشینیں معاشروں میں رھن سھن کو تبدیل کر دیتی ہیں۔ معاشروں میں انقلابی تبدیلیوں کی اصل وجہ نئیں مشینیں ھی ھیں۔ موبائل کی آمد نے میک لوھان کے کے نظرے کو سچ ثابت کیا ھے۔ماحول میں انقلابی تبدیلی آچکی ھے۔

پوری دنیا یکسر تبدیل ھو چکی ھے ۔ ظاھر ھے اس تبدیلی کا رنگ اس چھوٹے سے قصبے تک کیسے نہ پہنچتا.

آبادی قصبے کے چاروں طرف میلوں تک پھیل گئی ہے۔ اب باتیں سینکڑوں یا لاکھوں میں نہیں ، کروڑوں میں ھوتی ہیں۔ معیار زندگی کے ساتھ ساتھ معیار تعلیم بھی بہت بہتر ھو چکا ھے۔  گو کہ پانی زمیں میں بہت نیچے چلا گیا ھے لیکن پانی میٹھا ھے  اور سبزیاں خالص ۔

چونڈہ قصبے کا سیالکوٹ شہر کے ساتھ کوئی براہ راست رابطہ نھی۔ کوئی معاشرتی یا سیاسی مسئلہ نھی ، بلکہ سڑک  ٹوٹی پھوٹی ھونے کی وجہ سے ھے۔ پچھلی کئ دھائیوں سے ۱۳ کلومیٹر سڑک کا ٹکڑا جو سیالکوٹ کو بڈیانے سے جوڑتا ھے حکومتی مہربانی کا طلبگار ھے۔ یہ قصبے کی ترقی کے لئے سب سے بڑی روکاوٹ ھے ۔ اس سڑک کی وجہ سے تقریبا دس سال سے زائد عرصے سے ، کم از کم ۲۰ لاکھ آبادی کا سیالکوٹ شہر سے رابطہ منقطع ھے۔ جب اتنی زیادہ آبادی کا ایک دوسرے سے رابطہ نھی ھو گا تو کاروبار کیسے ترقی کرے گا۔ پبلک ٹرانسپورٹ نہ ھونے کے برابر ھے اور ریلوے ٹرین کی عدم دستیابی کے باعث شہریوں کو سخت مشکلات کا سامنا ھے۔ امید ھے اگلی بہار سے پہلے گلوں کے ساتھ سڑک بھی اپنی تمام خوشبوؤں اور رعنائیوں کے ساتھ موجود ھو گی۔

You might also like