‏چین میں سیلاب‏Ubermenschپونے دوپاکستان میں ہر سال 10 لاکھ مکانات کی ضرورت ہےایران نے اسرائیل پر ڈرون اور میزائیلوُں سے حملہ کر دیا ہےگوجرانوالہ- سیالکوٹ- وزیر آباد- گجرات اور لالہ موسی، بنا بنا اکنامک زونسیاچن کے محاز پر پاکستان کی فوجپاکستان کے شمالی علاقہ جاتمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےمعاشرےمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےاگر ہمّت ہو تو معزوری کوئی رکاوٹ نہیں ہوتیمیلہ 6 ستمبروہ لمحہ جب 7.4 شدت کے زلزلے نے تائیوان کو ہلا ڈالامہنگائی کی شرح ۲۰% پر آ گئی-اپنی صحت کا خیال رکھیں- سوشل میڈیا سے دور رہیںصدر ارگان کی پارٹی کو ترکی میں بلدیاتی انتخابات میں شکستافغان سرزمین دہشتگردوں کی محفوظ آماجگاہ ہے ؛ فنانشل ٹائمچولستان میں زمینوں کو آباد کرنے کا منصوبہسائنوٹیک سولر پرائیویٹ لمیٹڈ کی پاکستان میں سرمایہ کاریپیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 9 روپے 66 پیسے کا اضافہ –مائع پیٹرولیم گیس( ایل پی جی) کی فی کلو قیمت میں 6 روپے 45 پیسے کمی کردی گئی

چین کے لیے تائیوان پر حملہ کرنا کتنا آسان ہو گا

چین اور تائیوان کے درمیان کشیدگی میں ایک بار پھر اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ تائیوان کے فضائی حدود میں مسلسل مداخلت کے بعد اب چین کی اعلیٰ قیادت نے تائیوان کے ‘اتحاد’ کی بات کی ہے۔

چینی صدر شی جن پنگ نے کہا ہے کہ تائیوان کا ‘اتحاد مکمل ہونا چاہیے۔’

چینی صدر نے کہا ہے کہ دوبارہ اتحاد پرامن طریقے سے ہونا چاہیے، لیکن انھوں نے خبردار بھی کیا کہ چینی عوام علیحدگی پسندی کی مخالفت کی ایک ‘عظیم روایت’ رکھتے ہیں۔

جواب میں تائیوان نے بھی کہا ہے کہ اس کا مستقبل اس کے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے۔

تائیوان کی صدر سائی اینگ وین نے کہا ہے کہ تائیوان اپنی سلامتی کو مضبوط کرتا رہے گا تاکہ کوئی بھی ان کے جزیرے پر طاقت کا استعمال نہ کر سکے۔

خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق اتوار کو نیشنل ڈے کی ریلی میں سائی نے کہا : ‘ہم اپنی قومی سلامتی کو مضبوط بناتے رہیں گے اور ہم اپنی حفاظت کے لیے اپنا عزم ظاہر کرتے رہیں گے تاکہ کوئی بھی تائیوان کو اس راستے پر چلنے پر مجبور نہ کرے جو چین نے ہمارے لیے بنایا ہے۔

‘اس کی وجہ یہ ہے کہ چین نے جو تجویز پیش کی ہے وہ نہ تو تائیوان کے لیے ایک آزاد اور جمہوری طرز زندگی ہے اور نہ ہی یہ ہمارے 23 ملین لوگوں کو خودمختاری دیتا ہے۔’

تائیوان خود کو ایک خودمختار ملک سمجھتا ہے

تائیوان خود کو ایک خودمختار ریاست سمجھتا ہے جبکہ چین کا ماننا ہے کہ یہ اس کا ایک صوبہ ہے۔

چین اور تائیوان سنہ 1940 میں خانہ جنگی کے دوران تقسیم ہو گئے تھے، لیکن بیجنگ دہرا رہا ہے کہ وہ اس جزیرے کے حصول کے لیے طاقت کے استعمال سے گریز نہیں کرے گا۔

اس جزیرے کا اپنا آئین اور جمہوری طور پر منتخب رہنما ہیں۔ تائیوان میں تین لاکھ افراد پر مبنی فوج بھی ہے۔

تاہم، تائیوان کو اب بھی صرف چند ممالک تسلیم کرتے ہیں۔ اس کے بجائے بیشتر ممالک نے چینی حکومت کو تسلیم کیا ہے۔

امریکہ کے بھی تائیوان کے ساتھ سرکاری تعلقات نہیں ہیں لیکن اس نے ایک قانون پاس کیا ہے جس کے تحت وہ جزیرے کو تحفظ فراہم کر سکتا ہے۔

تائیوان پر بیجنگ کی حکمرانی کو قبول کرنے کے لیے فوجی اور سیاسی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے اور تائیوان پر چینی لڑاکا طیاروں کا بار بار گزرنا بین الاقوامی تشویش کا مسئلہ ہے۔

حالیہ دنوں میں چین نے کئی بار تائیوان کے فضائی دفاع کی خلاف ورزی کی ہے اور اس پر ریکارڈ تعداد میں لڑاکا طیارے بھیجے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اتوار کو قومی دن سے قبل پروازیں تائیوان کے صدر کے لیے انتباہ ہیں۔

بیجنگ نے طاقت کے استعمال سے اتحاد کے امکان کو بھی رد نہیں کیا۔ تائیوان کے وزیر دفاع نے کہا ہے کہ چین کے ساتھ حالیہ کشیدگی 40 سالوں میں بدترین سطح پر ہے۔

کیا ہو سکتا ہے؟

کچھ تجزیہ کار، عہدیدار اور سرمایہ کار یہ بھی مانتے ہیں کہ اگلے چند سالوں میں یہ معاملہ مزید سنگین ہو جائے گا اور امریکہ کے ساتھ جنگ کا امکان ہے۔

چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز نے چین کی فضائیہ سے درخواست کی تھی کہ وہ تائیوان کو اوپر سے مانیٹر کرے اور اگر اسے نشانہ بنایا گیا تو اسے ‘فوجی طریقوں سے انضمام مکمل کرنا چاہیے’۔

دوسری جانب تائیوان نے کہا ہے کہ وہ اسی وقت حملہ کرے گا جب اس پر حملہ کیا جائے گا۔

دونوں طرف سے ان بیانات کے درمیان، چین اور تائیوان کے پاس جنگ کو ملتوی کرنے کی بہت سی وجوہات ہیں کیونکہ اس جنگ میں ہزاروں لوگ مارے جا سکتے ہیں، معیشت برباد ہو سکتی ہے اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ ایٹمی تنازعے بھی پیدا ہو سکتا ہے۔

نیوز چینل بلوم برگ کا کہنا ہے کہ ان تمام خطرات کے بجائے چین تائیوان کو دوسرے طریقوں سے کنٹرول میں رکھنے کی کوششیں جاری رکھے گا۔

اس میں چین فوجی دھمکیوں، سفارتی تنہائی اور معاشی مراعات کے ذریعے تائیوان پر قبضہ کرے گا۔ حال ہی میں تائیوان میں ایکوئٹی ریکارڈ بلندیوں پر تھی۔

بہر حال یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کچھ عزائم چین کو جنگ کی طرف دھکیل سکتے ہیں۔ اس میں سب سے بڑی بات شی جن پنگ کا خود کو ثابت کرنا ہے۔

شی جن پنگ ‘کھوئے ہوئے علاقے’ واپس حاصل کرکے اپنی طاقت کو ثابت کرنا چاہتے ہیں۔

دوسری طرف امریکہ کے ساتھ بگڑتے تعلقات، ہانگ کانگ میں جاری کشیدگی اور کورونا وائرس کے حالات سے لے کر ٹیکنالوجی کی وجہ سے بڑھتی ہوئی مسابقت جیسے موضوعات اس تناؤ کی وجوہات بتائے جاتے ہیں۔

پروجیکٹ 2049 انسٹی ٹیوٹ کے سینیئر ڈائریکٹر ایان ایسٹن نے بلومبرگ کو بتایا: ‘میری تشویش تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ ایک بڑا بحران آنے والا ہے۔

‘یہ تصور کرنا ممکن ہے کہ حملے کی کوششیں عالمی قوتوں کی جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہیں۔ اگلے پانچ سے دس سال انتہائی خطرناک اور بنیادی طور پر غیر مستحکم ہونے والے ہیں۔’

ایسٹن جیسے بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چین کچھ سالوں میں تائیوان پر قبضہ کر لے گا۔ فوجی مشقوں، ہتھیاروں کی خریداری اور اسٹریٹجک دستاویزات کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ چین تائیوان کو ایک جھٹکے میں قبضہ کرنا چاہتا ہے تاکہ امریکہ کو اس کی مدد کا موقع نہ ملے۔

اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق چین نے تائیوان کے مقابلے میں اپنی فوج پر 25 گنا زیادہ خرچ کیا ہے اور کاغذ پر بیجنگ کا فوجی توازن بہت زیادہ دکھائی دیتا ہے۔

میزائلوں سے لے کر لڑاکا طیاروں تک ہر سطح پر چین کو زبردست برتری حاصل ہے اور اس کے پاس ایٹمی ہتھیار بھی ہیں جس کا وہ کبھی ذکر نہیں کرتا۔

چین کے اہداف کیا ہیں؟

سنہ 1911 میں چین میں آخری بادشاہت کے خاتمے کی 110 ویں سالگرہ کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے شی جن پنگ نے سنیچر کے روز کہا کہ اتحاد ‘پرامن طریقے سے’ ہونا چاہیے جو کہ ‘چینی قوم اور تائیوان کے عوام کے مکمل مفاد میں ہوگا۔’

لیکن انھوں نے یہ بھی کہا کہ ‘کسی کو بھی چینی عوام کی قومی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے دفاع کی مضبوط صلاحیت اور عزم کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

‘مادر وطن کے مکمل انضمام کا تاریخی کام لازمی ہے اور ضرور پورا ہو گا۔’

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بیجنگ تائیوان پر کئی طریقوں سے حملہ کر سکتا ہے، جس میں پہلا تائیوان کے مالیاتی نظام اور بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنانا ہے۔ اس میں وہ سائبر اور الیکٹرانک جنگ کر سکتا ہے، جس کی وجہ سے امریکی سیٹلائٹ کو بیلسٹک میزائلوں کے بارے میں علم نہ ہو سکے۔

You might also like