طالبان کے عبوری وزیرِ اعظم ملا محمد حسن اخوند نے طالبان کو کابل کے گھروں، دفاتر میں داخل نہ ہونے کا حکم دے دیا

طالبان حکومت کے عبوری وزیرِ اعظم ملا محمد حسن اخوند نے ایک حکم نامہ جاری کیا ہے جس کے تحت گروہ کے اراکین کو کابل میں گھروں اور دفاتر میں داخل ہونے سے منع کیا گیا ہے۔

سرکاری خبررساں ایجنسی بختر نیوز کے مطابق اس حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ‘کسی کو بھی کابل شہر اور اس کے گرد و نواح میں گھروں اور دفاتر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے، چاہے وہ گاڑیوں اور آلات کی تلاشی لینے کے لیے ہو، اور نہ انھیں کسی سے گاڑیاں اور آلات لینے کی اجازت ہو گی۔

اس کے علاوہ طالبان کے عربی زبان میں چلائے جانے والے ٹوئٹر اکاؤنٹ میں یہ بھی شائع کیا گیا ہے کہ عبوری وزیرِ اعظم نے حکم دیا ہے کہ تمام فوجی اہلکار اور سکیورٹی فورسز نجی گھروں کو خالی کر کے فوجی اڈوں میں منتقل ہو جائیں۔

یہ اعلان اس حکم نامے کے ایک روز بعد آیا ہے جس میں طالبان کی جانب سے کہا گیا تھا کہ کابل میں ایسے گھر جن کے رہائشی افغانستان چھوڑ کر جا چکے ہیں انھیں کرائے پر دے دیا جائے گیا، اور اس سے اکٹھی ہونے والی رقم سینٹرل بینک میں جمع کروا دی جائے گی۔

یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ملک میں معاشی بحران شدید ہوتا جا رہا ہے۔

اس اعلامیے کے مطابق جو لوگ ’مغربی ممالک فرار ہو گئے ہیں‘ ان کے گھروں کو کرائے پر دے دینا چاہیے جب تک کہ وہ افغانستان واپس نہ آ جائیں۔

اس اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ یہ کرائے سینٹرل بینک میں جمع کروائے جائیں گے لیکن اس سے آنے والا منافع ان گھروں کے مالکان کو اس وقت دیا جائے گا جب وہ اپنے گھروں میں واپس آئیں گے۔

طالبان نے جب اگست میں کابل کا کنٹرول سنبھالا تو ملک سے ہزاروں افراد نے انخلا کے لیے راستے تلاش کرنا شروع کیے۔ اس انخلا کے دوران صرف امریکہ اور اتحادی فوجوں کی جانب سے ایک لاکھ سے زیادہ افغانوں کا انخلا ممکن ہو سکا۔

اس قبضے کے بعد سے مغربی ممالک کی جانب سے بین الاقوامی فنڈ منجمد کر دیے گئے، جن میں وہ اثاثے بھی شامل ہیں جن تک افغانستان ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی توسط سے رسائی حاصل کر سکتا تھا۔

ان پابندیوں کی وجہ سے ملک میں مہنگائی انتہا کو پہنچ رہی ہے اور کیش کی کمی بھی ہو رہی ہے۔

گذشتہ ہفتے طالبان نے ایک آن لائن مہم کے ذریعے بین الاقوامی برادری سے اربوں ڈالر کے منجمد اثاثوں تک رسائی کی اپیل کی تھی۔

افغانستان کے سب سے بڑے بینکوں میں سے ایک اسلامک بینک آف افغانستان کے سربراہ سید موسی کلیم ال فلاحی نے گذشتہ ہفتے کہا ہے کہ افغانستان میں بینکنگ کا شعبہ تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔

سید موسی کلیم کا کہنا ہے کہ افغانستان کا مالیاتی شعبہ ایک ’بحران‘ سے گزر رہا ہے۔

افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد دبئی منتقل ہو جانے والے سید موسی کلیم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ افغانستان میں لوگ ’بڑی تعداد میں بینکوں سے رقم نکال رہے ہیں۔‘

’وہاں پر صورتحال ایسی ہے کہ لوگ صرف پیسے نکال رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بینک اور کوئی خدمات فراہم نہیں کر رہے ہیں۔‘