پی سی بی کے چیف ایگزیکٹیووسیم خان کے استعفے سے کیا مزید تبدیلیاں آئیں گی؟
پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) میں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ ایک چہرہ بدلنے سے کئی چہرے بدل جایا کرتے ہیں۔
حکومتی آشیرباد کے ساتھ جو بھی نیا چیئرمین قذافی سٹیڈیم میں واقع پاکستان کرکٹ بورڈ کے ہیڈ کوارٹر میں قدم رکھتا ہے تو یہ بات سب کو معلوم ہوتی ہے کہ اب مزید تبدیلیاں آنے والی ہیں۔
ستمبر میں رمیز راجہ کے پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بننے کے بعد بھی یہ بات طے تھی کہ وہ اپنے انتظامی ڈھانچے میں تبدیلیاں کریں گے۔ کچھ لوگ اپنے استعفے دیں گے، کچھ سے استعفے لیے جائیں گے، اور پھر یہ سفر اسی طرح آگے بڑھے گا جیسا کہ پہلے بھی ہوتا رہا ہے۔
رمیز راجہ کے چیئرمین کا عہدہ سنبھالنے سے قبل ہی پاکستانی کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ مصباح الحق اور بولنگ کوچ وقاریونس نے استعفیٰ دے دیا تھا اور آج (بدھ کو) پاکستان کرکٹ بورڈ کے سیٹ اپ میں چیف ایگزیکٹیو آفیسر کے اہم عہدے پر فائز وسیم خان نے بھی استعفیٰ دے دیا ہے۔
لیکن وسیم خان کا استعفیٰ موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے غیر متوقع معلوم نہیں ہوتا حالانکہ ان کے عہدے کی مدت میں ابھی بھی پانچ ماہ باقی تھے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے آئین میں زیادہ اختیارات چیف ایگزیکٹیو کے پاس ہوتے ہیں لیکن رمیز راجہ چیئرمین بننے کے بعد جس طرح ذرائع ابلاغ کے سامنے آئے ہیں، ان کے طرز عمل اور ان کے انٹرویوز، بیانات اور ٹوئٹر سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ شاید وہ اپنے پاس مکمل اختیارات رکھنا چاہتے ہیں۔
وسیم خان 2019 میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے منیجنگ ڈائریکٹر بنے تھے۔ ان کی تقرری پر اس وقت کے بورڈ آف گورنرز کے کچھ ارکان نے اعتراض کیا تھا جس پر اس وقت کے چیئرمین احسان مانی کا کہنا تھا کہ یہ تقرری آئین کے مطابق کی گئی ہے۔
بعد میں وسیم خان کو چیف ایگزیکٹیو بنا دیا گیا لیکن ان کے چیئرمین احسان مانی سے بھی اختلافات پیدا ہوگئے تھے۔
وسیم خان نے بائیں ہاتھ کے بیٹسمین کی حیثیت سے برطانیہ کی کاؤنٹی کرکٹ میں وارِک شائر، سسیکس اور ڈربی شائر کی نمائندگی کی اور پانچ سنچریاں اور سترہ نصف سنچریاں بھی بنائیں۔
وہ لیسٹر شائر کاؤنٹی کے چیف ایگزیکٹیو بھی رہے۔ چونکہ وہ انگلینڈ سے آئے تھے اور وہاں کے کاؤنٹی کلچر کا حصہ رہے تھے لہذا ان دو ڈھائی برسوں کے دوران وہ انگلینڈ اور دوسرے ممالک کے کرکٹ بورڈز کے حکام سے اپنا ذاتی دوستی اور تعلقات کا ذکر زورشور سے کرتے رہے تھے۔
وسیم خان کے لیے سب سے بڑا دھچکہ نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کی کرکٹ ٹیموں کے پاکستان کے دورے کی منسوخی تھی کیونکہ وہ ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ یہ ٹیمیں ان کے ان کرکٹ بورڈز سے ذاتی تعلقات کی وجہ سے پاکستان آرہی ہیں۔
وسیم خان کے استعفے کے بعد دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا رمیز راجہ چیف ایگزیکٹیو آفیسر کے عہدے پر کوئی نئی تقرری کریں گے یا پھر تمام اختیارات کا خود استعمال کرتے ہوئے ڈائریکٹر کرکٹ کی تقرری کریں گے۔
’وسیم خان نے نوشتہ دیوار پڑھ لیا تھا‘
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان راشد لطیف کہتے ہیں کہ ’موجودہ صورتحال میں یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ یہ پاکستان کا کلچر ہے جس میں آنے والے کو سلام اور جانے والے کو خداحافظ ۔‘
راشد لطیف کہتے ہیں ’وسیم خان نے نوشتہ دیوار پڑھ لیا تھا، انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ اب مزید عرصہ پاکستان کرکٹ بورڈ میں نہیں رہ سکیں گےʹ۔
راشد لطیف کا کہنا ہے ’گر پاکستانی کرکٹ کے معاملات قذافی سٹیڈیم سے ہی چلائے جائیں تو یہ کرکٹ چلے گی اور پائیدار بھی ثابت ہوگی۔‘
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق فاسٹ بولر عاقب جاوید کے خیال میں ʹپاکستان کرکٹ بورڈ کے انتظامی ڈھانچے میں تبدیلیاں دو صورتوں میں ہوتی ہیں۔
’ایک اس وقت جب حکومت تبدیل ہوتی ہے اور دوسری صورت اس وقت ہوتی ہے جب ٹیم کی کارکردگی اچھی نہ ہو اور نتائج اچھے نہ آرہے ہوں تو پھر پیٹرن پر دباؤ آجاتا ہے کہ وہ بورڈ میں تبدیلیاں لائے۔ اس وقت عمران خان پیٹرن ہیں اور یقیناً ان پر بھی دباؤ ہے کہ ٹیم کی کارکردگی نیچے جارہی ہے تو وہ لوگوں کو تبدیل کر کے دیکھیں۔‘
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ
چیف ایگزیکٹیو وسیم خان کے استعفے کے بعد یہ سوال سامنے آیا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ میں تبدیلیوں کے عمل میں کیا مزید استعفے سامنے آئیں گے؟
اس وقت سب سے بڑی بحث ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے لیے اعلان کردہ پندرہ رکنی سکواڈ میں ممکنہ تبدیلیوں کے بارے میں ہو رہی ہے۔
اس سکواڈ میں شامل چند کھلاڑی اس وقت جاری قومی ٹی ٹوئنٹی کپ میں خاطر خواہ کارکردگی دکھانے میں کامیاب نہیں رہے اور ان کے سلیکشن پر بہت زیادہ اعتراضات سامنے آئے ہیں۔
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے لیے پاکستانی سکواڈ کا اعلان چھ ستمبر کو چیف سلیکٹر محمد وسیم نے کیا تھا اور اس وقت انھوں نے اُن دو تین کھلاڑیوں کا بھرپور انداز میں دفاع کیا تھا جن کی سلیکشن پر حیرانی کا اظہار کیا جا رہا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
کاؤنٹی کھیلنے والے پہلے پاکستانی نژاد کرکٹر کا نیا مشن
رمیز راجہ: انڈر 19 کرکٹ سے پی سی بی کی چیئرمین شپ تک کا سفر
جب پاکستانی کھلاڑی کرکٹ بورڈ کے خلاف بغاوت پر اُتر آئے۔۔۔
جاوید برکی: جرنیل کا بیٹا پاکستانی کرکٹ ٹیم کا کپتان کیسے بنا؟
قابل ذکر بات یہ ہے کہ صرف تین روز بعد ہی چیف سلیکٹر محمد وسیم نے ایک نجی ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں یہ کہہ دیا کہ اعلان کردہ ٹیم میں ردوبدل ہوسکتا ہے کیونکہ آئی سی سی کے قواعد و ضوابط کے مطابق دس اکتوبر تک سکواڈ میں تبدیلی کی جاسکتی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چیف سلیکٹر محمد وسیم نے ٹیم کا اعلان کرتے وقت تو ہر کھلاڑی کی صلاحیت اور اہلیت کے گُن گائے تھے لیکن پھر اچانک ایسا کیا ہوا کہ وہ انھی کھلاڑیوں کو تبدیل کرنے کی بات کر رہے ہیں۔
اس سے یہ قیاس لگانا مشکل نہیں ہے کہ اس کا سبب نیشنل ٹی ٹوئنٹی کپ میں بعض کھلاڑیوں کی مایوس کن کارکردگی ہے جس کی وجہ سے ٹیم میں تبدیلی کرنے کے بارے میں دباؤ چیف سلیکٹر اور بورڈ پر بڑھتا جارہا ہے۔
عاقب جاوید اس بارے میں کہتے ہیں ’یہ صورتحال افراتفری ظاہر کر رہی ہے۔‘
’جب پاکستانی ٹیم کا سلیکشن ہوتا ہے تو اس کا کوئی نہ کوئی پیمانہ ہوتا ہے۔ جب آپ ٹی ٹوئنٹی کی بات کرتے ہیں تو اس سلسلے میں پاکستان سپر لیگ میں کھلاڑیوں کی کارکردگی دیکھی جاتی ہے جو سب سے بڑا پلیٹ فارم ہے۔ سلیکشن کے وقت یہ بات خاص طور پر دیکھی جاتی ہے کہ پچھلے دو تین برسوں میں کن کن کھلاڑیوں نے کن کن پوزیشنوں پر مستقل مزاجی سے کارکردگی دکھائی ہے۔ اس کے بعد نیشنل ٹی ٹوئنٹی کپ آجاتا ہے، جس کا پی ایس ایل جیسا معیار نہیں لیکن پھر بھی دونوں ایونٹس کو سامنے رکھ کر آپ بہترین سکواڈ منتخب کرتے ہیں۔‘
عاقب جاوید کا کہنا ہے کہ ’ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سر پر ہے لیکن بورڈ کے لوگ ابھی بھی مخمصے میں ہیں کہ ہمارے پندرہ کھلاڑی کون ہو گے؟
’اس صورتحال میں یہ سوال تو بنتا ہے کہ جن کھلاڑیوں کو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سکواڈ میں ہونا چاہیے تھا انھیں ویسٹ انڈیز اور انگلینڈ میں کیوں نہیں کھلایا گیا؟ یہ کس طرح کی پلاننگ ہے؟ مجھے ڈر ہے کہ یہ ورلڈ کپ بھی تجربات کی نذر ہو جائے گا ۔‘
واضح رہے کہ پاکستان کی ٹیم نے اس سال دورہ انگلینڈ میں تین ٹی ٹوئنٹی کھیلے جبکہ ویسٹ انڈیز میں پانچ میں سے چار میچز بارش کی نظر ہو گئے اور واحد میچ میں پاکستان نے کامیابی حاصل کی تھی۔
بیڈمنٹن کی کھلاڑی کرکٹ بورڈ میں
میز راجہ کے چیئرمین بننے کے بعد جہاں پاکستانی ٹیم کے کوچز کے طور پر آسٹریلیا کے میتھیو ہیڈن اور جنوبی افریقہ کے ورنن فلینڈر کی تقرری ہوئی ہے وہیں پی سی بی کے ویمنز شعبے کی سربراہ کے طور پر تانیہ ملک کا عروج ممتاز کی جگہ تقرر ہوا ہے۔
تانیہ ملک ماضی میں قومی بیڈمنٹن چیمپئن رہ چکی ہیں۔ انھوں نے سنہ 1986 کے ایشین گیمز میں پاکستان کی نمائندگی کی تھی۔
تانیہ ملک کی یہ تقرری کرکٹ کے حلقوں میں حیران کن نظروں سے دیکھی گئی ہے کہ ان کا براہ راست کرکٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے جیسا کہ ماضی میں یہ ذمہ داری سنبھالنے والوں میں شاہد اسلم، عروج ممتاز اور شمسہ ہاشمی کا براہ راست کرکٹ سے تعلق رہا ہے۔
اس وقت تانیہ ملک پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے ایجوکیشن اور ویمنز کمیشن کی رکن ہیں۔ وہ پنجاب اولمپک ایسوسی ایشن کی صدر اور پنجاب سکواش ایسوسی ایشن کی نائب صدر ہیں۔
اس کے علاوہ تانیہ ملک پاکستان ٹیبل ٹینس فیڈریشن کے سابق صدر سعید حسن شاہ کی بیٹی اور سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کی بھتیجی ہیں۔ ان کے شوہر احمر ملک پاکستان ٹیبل ٹینس فیڈریشن کے سیکریٹری ہیں۔