ھون کی کرنا اے ؟
اس وقت دنیا کو بہت پیچیدہ مسائل کا سامنا ہے مگر انہیں حل کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہو رھی-اسی کی بڑی وجہ تو یہی ھے بحران عام آدمی کے اردگرد گھیرا ڈالے کھڑے ہیں- بڑے ملک اور بڑے لوگ عموما اڑ کر بحران سے نکل جاتے ہیں اور اسی بات پر بحران تلملا کر پیچھے بچ جانے والوں کے کس بل نکال دیتا ھے-
نان اسٹیٹ ایکٹرز کا عالمی اور ملکی سیاست میں ضرورت سے زیادہ کردار بہت سے مسائل کو جنم دے رھا ہے-
اگر کوئی افسر یا سیاسی لیڈر ایک پریس کانفرنس کر کے پوری سیاست میں بھونچال بھر پا کر دے تو ہمیں سوچنا ضرور چاھیئے کہ ” کیا ہم لائی لگ” بن چکے ہیں-ھر بندے کی بات کو سیریس لے لیتے ہیں- گھر کی حد تو یہ ٹھیک ھے، اتنا تو چلتا ھے- امّاں اور زوجہ کی چپقلش میں یہ روائتی جملہ ھے کہ ” منڈا میرا لائی لگ نکل آیا”- یا ” بندہ میرا پیناں لائی لگ اے”- لیکن جب معاملہ ملک کا ھو، پھر ضرور غور کرنا چاھیے-
اس وقت پاکستان کو بھی شدید سیاسی، معاشی، معاشرتی، موسمیاتی ہر قسم کے بحران کا سامنا ہے- ہمارے اندرونی مسائل، ہمارے بیرونی چیلنجز سے کہیں زیادہ ہیں- ویسے تو یہ اچھا موقع ہے کہ بحران بڑاہے ،اور اگر ہم اس پر قابو پا لیں تو عظیم قوم بن کر ابھر سکتے ہیں- لیکن عظیم بننے میں ہمیں اتنی دلچسپی نہیں -اس لئے ہم کئی سالوں سے ان بحران کو نہ صرف سنبھالے ہوئے ہیں بلکہ ان کی پرورش بھی کر رھے ہیں – بحرانوں کی پرورش کرنے کا وہی نتیجہ نکلتا ھے جو سانپ کو دودھ پلانے کا-
اکیسویں صدی کا ایک چوتھائی حصہ گزر چکا ہے -ہمارے ہاں آج بھی پلاسٹک کے بیلٹ باکس میں ووٹ ڈال کر قابل قیادت کو ڈھونڈا جا رھا ھے-
دنیا کے ھر شعبے میں قابلیت کا تعین کرنے کے لئے امتحان ھوتا ہے- اچھا طالبعلم وہ ہے جو امتحان میں زیادہ نمبر لے، اچھا کاروبار وہ ہے جو زیادہ منافع دے- زیادہ ووٹ لینے والا مقبول عام تو ہو سکتا ہے، وہ قیادت کے قابل بھی ہے، یہ کیسے ثابت ہو گا- مقبولیت کا تعلق perception سے ہے -یعنی اشتہاری مہم یا ڈیجیٹل میڈیا کمپین سے-
الیکشن دراصل مقبولیت چیک کرنے کا طریقہ کار ہے- ایک پروسیجر ہے جس میں کاغزات نامزدگی، ان کی جانچ پڑتال، انتخابی نشان ، پھر ووٹنگ ،انگوٹھے پر نشان، مہر لگے بیلٹ پیپر، پولنگ ایجنٹ کی موجودگی، فارم ۴۵، پھر ریٹرنگ آفیسر، پھر فارم ۴۷، پھر الیکشن کمیشن – اس سارے عمل میں امیدوار کی قابلیت کہاں چیک ہو رھی ہے کہ وہ قانون سازی کر سکتا ہے یا نہیں ، وہ کوئی بھی وزارت کیسے چلائے گا، بحرانوں سے کیسے نمٹے گا، وغیرہ وغیرہ-
مغربی جمہوریت میں سیاسی پارٹیاں مستقبل کی قیادت کی تربیت کرتی ہیں اور پھر اگر امیدوار میں دم ھو تو وہ سیاسی جماعت کی نمائندگی جیت کے ملکی سربراہ کے عہدے کے لئے آگے آتا ھے- آج کل امریکہ میں صدارتی امیدوار کے لئے عمر کی حد کاتعین کرنے کی بحث شروع ھو چکی ھے کیونکہ صدر بائیڈن کی عمر تقریبا بیاسی سال ہے- پارٹی سیاست دراصل مغربی جمہوریت کا حسن ہے- الیکشن محظ ایک حجت ہوتی ھے- کوئی بھی سیاسی لیڈر منتخب ھو جائے وہ سب تقریبا یکساں صلاحیت کے مالک ھوتے ہیں-
پاکستان کو معرض وجود میں آئے چھہتر سال ہو گئے ہیں- اس وقت آبادی کے تناسب میں 64% وہ نوجوان شامل ہیں جن کی عمر 30 سال سے کم ھے- قیادت کے انتخاب کی چھہتر سالہ پرانی روایات شاید نوجوانوں طبقے کے خیالات اور ان کے ٹیلنٹ سے مطابقت نہیں رکھتیں- لیکن لطف کی بات یہ ھے کہ قابلیت تو دور ہم مقبولیت کے حوالے سے بھی بندہ چنتے ھوئے کسی نتیجے پر نہیں پہچ پا رھے-