ھماری رائے


تحریر:عتیق الرحمان
ہماری رائے بہت مقدم ہے ، یہ ہمارا ذاتی سرمائیہ ہے، اسے شکوک و شبہات سے بالا ہو نا چاہیے-ایک باشعور اور جمہوری معاشرے میں عوام کو اپنی رائے رکھنے کا پورا حق ہے- یہ عوامی رائے ہی ہے جو حکمرانوں کو اقتدار بخشتی ہے اور پھر چھین بھی لیتی ہے- لیکن رائے بنتی کیسے ہے- کیا یہ مصنوعی عمل ہے یاسماجی رویے ہماری رائے پر اثر انداز ہوتے ہیں- یہ دونوں باتیں قریب قریب ٹھیک ہیں لیکن رائے بننے اور بنانے والے عوامل کا تجزیہ بہت ضروری ہے-
میڈیا پر چلنے والی خبروں کو ہر کوئی اپنے انداز سے تشریح کرتا ھے- حتی کہ میڈیا بھی ایک ہی خبر کو اپنے اپنے انداز سے پیش کرتا ہے-
جیسا کہ غیر سیاسی افراد اور پڑھا لکھا طبقہ ، ٹی وی پر چلنے اور اخبار میں چھپنے والی خبر پر زیادہ یقین رکھتا ھے اور اپنی گفتگو میں اسی کا حوالہ دیتے ہیں- اکثر لوگ روز ایک ہی اخبار کا مطالعہ کرتے ہیں، خبریں بھی وہ اپنے پسندیدہ ٹی وی پر دیکھنا پسند کرتے ہیں- ان کا نقطہ نظر تقریبا وھی ھو گا جیسا اس اخبار یا ٹی وی کا خبریں پیش کرنے کا انداز- جرنلزم کی زبان میں یہ ایجنڈا سیٹنگ تھیوری ہے-
عوام اور حکومت ایک دوسرے کی ضد سمجھے جاتے ہیں- شاید ہی کوئی شہری ہو جو حکومت سے نالاں نظر نہ آتا ھو- میڈیا ھمیشہ حکومت کو ولن اور عوام کو مذلوم دکھائے گا تاکہ عوام میں پنپ سکے- حکومت ہمیشہ اپنے اچھے کام کو میڈیا پر بڑھا چڑھا کر پیش کرے گی- اپوزیشن کا کام بہت آسان ہوتا ہے- انہوں نے صرف حکومت کی ٹانگیں کھینچنی ہوتی ہیں باقی کسر میڈیا خود پوری کر دیتا ہے- جیسے ہی حکومت تبدیل ہوتی ہے تو عوامی رائے بھی میڈیا کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی جاتی ہے- حکومتی تعریف و توصیف کرنے والے میڈیا ھاؤسز اور صحافی عوام میں مقبول نہیں ہوتے-
سیاسی وابستگی والے لوگ خبر کو اپنی پسند اور نا پسند کے حوالے سے موصول کرتے ہیں- اگر خبر ان کے خیالات سے مطابقت رکھتی ہو تو وہ اسے فورا آگے سوشل میڈیا پر لائک کر کے فارورڈ کریں گے اور اگر خیالات سے مطابقت نہ رکھتی ہو تو اس پر منفی ردعمل دیں گے- سوشل میڈیا ایکٹوسٹ ھمیشہ خبر پر اپنے خیالات کا اظہار کرے گا- سوشل میڈیا سیلیبرٹییز ( وی لاگرز یا ٹویٹر پر مشہور لوگ) اپنا نقطہ نظر اپنی مقبولیت کے لحاظ سے پیش کریں گے-
سوشل میڈیا پر الگورتھم ھمارے پسندیدہ پوسٹ، نظریات، گانے، پیغامات کو با ر بار سامنے لے کر آتے ہیں- اور ان کو بار بار سامنے دیکھ کر ھم سمجھتے ہیں کہ یہی اکثریت کا نقطہ نظر ہے- اس انٹر نیٹ phenomenon کو فلٹر ببل کہتے ہیں- یہی وہ تکنیک ہے جسے ڈیجیٹل مارکیٹنگ یا سیاسی قوتیں اپنے حق میں رائے استوار کرنے کے لئے اور پراپیگنڈا کرنے کے لئے استعمال کرتی ہیں -بار بار سامنے آنے والی خبریں اور اشتہارات دیکھنے اور پڑھنے والے کا نقطہ نظر وہی ہوتا جاتا ہے جیسا میڈیا کا content ھو گا- جرنلزم میں اسے cultivation Theory کہا جاتا ہے- مشہور امریکی دانشور نوم چومسکی اسے Manufacturing Consent کہتے ہیں-
مختلف نظریات کو دیکھنے، سننے اور پڑھنے سے سمجھ بوجھ کا معیار اور قوت برداشت میں بہت اضافہ ہوتا ہے-اور حقیقی رائے بنانے میں بہت مدد ملتی ہے- اگر دونوں طرف کے دلائل سننے کے بعد آپ رائے بناتے ہیں تو وہ بہت اعلی رائے ہے- اس رائے کا جھکاؤ کس طرف سے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا-
انٹر نیٹ کی بدولت آج کل صیح اور غلط کی تحقیق بہت آسان ہو گئی ہے- دو تین مختلف ذرائع سے خبر دیکھیں تو حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ خبر کا منبع کیا ہے اور اس میں کتنی صداقت ہے- پوسٹر اور پوسٹیں خبریں نہیں ھوتیں -اپنی رائے بنانے سے پہلے ضروری ہے کہ خبر کی تحقیق کر لیں- سیاسی لیڈروں کے خلاف، اور اداروں پر الزامات والی پوسٹیں گھڑی جاتی ہیں تاکہ عوامی رائے پر حاوی ہوا جا سکے -مزید ان پوسٹوں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ عوام میں اضطراب پیدا ہو- عوام کی بے چینی سے دشمن قوتیں فائدہ اٹھاتی ہیں – ہمیں سوشل میڈیا استعمال کرتے ہوئے ان باتوں پر توجہ دینی چاہئے کیونکہ ہماری رائے بہت مقدم ہے ، یہ ہمارا ذاتی سرمائیہ ہے، اسے شکوک و شبہات سے بالا ہو نا چاہیے-