کتاب کہانی-قسط نمبر 2..

سب سے پہلی جو لائبریری دیکھنے کا اتفاق ہوا وہ تبلیغ اسلام ھائی سکول چونڈہ کی تھی یعنی میرے اپنے سکول کی۔۔۔لائبریری کیا تھی ایک بڑے سے کمرے میں دیوار کے اندر چار بڑی الماریاں ۔۔۔بوسیدہ سے گرد الود شیشے ماتھے پہ سجائے اندر خاک کا ملبوس زیب تن کتابوں کی طہ در طہ قطاریں۔۔۔پڑھنے والوں کی منتظر رہتیں۔۔۔۔لیکن اپنے پانچ سالہ دور میں نہ تو کبھی ان الماریوں کو کھلتے دیکھا اور کتاب جاری کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔۔لائبریری کا انتظام بہت ہی محنتی استاد قاضی سعیدصاحب کی ذمہ واری تھی۔۔۔۔اور شخصیت کا اتنا دبدبہ۔تھا کوئی طالب علم کتاب کی طرف میلی آنکھ سے بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔۔۔ان۔کا موقف تھا کہ غیر نصابی کتابیں نصاب کی تعلم کو شدید متاثر کرتی ہیں اس وقت تو مایوسی ہوتی۔۔۔لیکن اپنی ذات پہ بے ترتیب مطالعہ کا عکس جب چالیس سال بعد دیکھا تو یہ حقیقت ۔۔۔حیران انکھوں سے دیکھی کہ وہ بالکل ٹھیک کہتے تھے۔۔۔کتب بینی میں اگر مرحلہ وار ترتیب و تنظیم نہ ہو تو انتشار فکر سے بچنا مجھ جیسے عام انسان کے لیے تقریبا نا ممکن ہی ہے۔۔۔۔البتہ بلند شخصیت لوگ اس جن کو قابو کر لیتے ہوں تو کچھ کہا نہیں جا سکتا۔۔۔۔موضوعات کی کمی نہ تھی ۔۔۔۔۔سوائے شاعری کے۔۔۔ساحر کے سوا تمام شاعر ہی متاثر کرنے سے قاصر رھے۔۔۔اقبال کی شکوہ و جواب شکوہ سے اشنائی کی امید بننے ہی والی تھی کہ ان کی مشکل پسندی سے پشیمانی ہونے لگی۔۔۔اور غالب نے نقش فریادی ۔۔۔۔سے اتنا خوف زدہ کر دیا کہ اج تک یہ ڈر لاشعور میں پیوست ہے کہ بڑے شاعروں کی شاعری سے لطف اٹھانہ ہم من چلو کا کام نہیں۔۔۔۔بسلامت روی۔۔۔از کرنل محمد خاں نے مزاح کی طرف راغب کیا تو بھائی کی معرفت ایک اور شگفتہ قلم کار شفیق الرحمن ۔۔۔۔بھی حماقتیں) سجائے زیر مطالعہ رھے۔۔۔غرض مختلف موضوعات نے اپنی حصار میں لے کیا۔۔۔۔۔میڑک کی تیاری کے لیے وقت کہاں تھا۔۔۔خیر والد صاحب کے ڈر سے تھوڑی تیاری کی اور غیر متوقع طور پر میڑک فسٹ ڈویژن میں پاس کر لیا۔۔۔غیر متوقع اس لیے کہ اساتزہ کے ساتھ والد صاحب کو بھی یقین نہیں تھا کہ میں یہ کارنامہ کر سکتا ہوں۔۔۔اس وقت میڑک کا رزلٹ والا دن بھی عجب ہی سماں باندھ دیتا تھا۔۔۔۔کتابوں والی دوکان کے باہر گزٹ کی کاپیاں سٹول پر سجائے بیٹھے۔۔۔شیخ بھائی ۔۔۔۔بھی گزٹ کو طہ کر کے اوپر ہاتھ رکھے بیٹھے رہتے کہ ۔۔۔۔پاپی پیٹ ہمارے نامہ عمال سے ہی جڑا ہو جیسے۔۔۔رزلٹ کے بعد آگر فیل ہوئے تو دس روپے اور پاس ہوئے تو پچاس۔۔۔۔جو سب سے پہلے لاھور سے رزلٹ لے آتا۔۔۔یوں جیسے اس کی تو چاندی ہو جاتی۔۔۔۔باقی دوکان دار وں کے سینے پر مونگ دھلنے کا یہ سنہری موقعہ ہوتا۔۔۔۔جن دوکان داروں کے بھیجے ہوئے بھائی بورڈ سے رزلٹ جلدی حاصل کرنے میں ناکام رہتے۔۔۔۔ان کی تاریخی بے عزتی بھی تاریخ کا حصہ ہے۔۔۔بے شمار واقعات میں رزلٹ لیٹ لانے والے کو اپنی ان گناہ گار آنکھوں سے تھپٹر پڑتے بھی دیکھے ہیں۔۔۔اور کوسنے تو رکھنے کا نام ہی نہیں لیتے تھے۔۔۔جا ہون کار اماں نوں ویکھا۔۔۔۔۔میرا رزلٹ والد صاحب نے دوبار چیک کیا۔۔۔جب ان کو واقعی یقین ہو گیا تو زندگی کی پہلی شاباش میں نے اس دن ان سے وصول پائی۔۔۔۔جو آج تک طاق دل کی مکین ہے۔۔۔۔غیر نصابی کتب میرا پہلا راستہ روکنے میں ناکام رھیں۔۔۔لیکن یہ ان کا آخری وار نہیں تھا۔۔۔۔۔ناکامیوں کے نشاں اور بھی ہیں۔۔۔۔۔ ( جاری)

داستان چونڈہ پبلک۔لائبریری۔۔۔