کبھی ریاستی معاملات کی بحث میں سیٹھ کو بھی زیر بحث لائیں

ھنر ھم میں سارے ہیں صرف استعمال کرنے کی ترتیب غلط ہے- 

کرکٹ ورلڈ کپ ہارنے کے بعد ہمیں لگا کہ بابر اعظم کی کپتانی میں نقص تھا- ہم نے کپتان تبدیل کر دیا، پالیسی وہی رکھی ” سفارش” اور "ھڈ حرامی”-

پھر آسٹریلیا سے ٹیسٹ سیریز ہار کر پتا چلا کہ کپتان نہیں ٹیم اور کرکٹ بورڈ مسئلہ ھے-  افغانستان اور بنگلہ دیش سے ہارنے کے بعد تشویش ھوئی کہ ٹیم میں لڑکے کرکٹ کھیلنے والے ہی یا ہاکی والوں کو سلیکٹ کر لیا ھے- ابھی  تحقیق جاری ھے- 

حکومت کے معاملے میں بھی ہم سر جوڑ کر جن بیٹھے تو اسی نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ حکومت نا اھل ہے- ہم ریاست میں حکومت، عوام اور سرکاری ملازمیں کو زیر بحث لاتے ہیں- کبھی سیٹھ کا ذکر نہیں آیا نہ کبھی تجزیہ کیا- 

محاورہ ہے کہ انصاف اندھا ہے  اور  سیاست کے سینے میں  دل نہیں ہوتا – تو اشرافیہ نے اس کا نتیجہ یہ اخذ کیا کہ ریاست کی اس تکنیکی معذوری کا   خمیازہ قوم بھگتے گی – بھائی اندھے پن کو دور کرنے کے لئے تحقیقی اداروں کو مضبوط کرو اور جن کے پاس دل نہیں ان کو دماغ سے کام لینا سکھاؤ- ابھی یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ ایک اندھا ہے دوسرے کے پاس دل نہیں تو ان دونوں کو نئی فراری  لے دو کہ عوام کو کچل دیں-

پچھلے دنوں ایک دوست نے سوشل میڈیا پر پوسٹ لگائی کہ ” ہم سب انفرادی طورپر کرپٹ رھتے ہوئے معاشرے کو ایماندار دیکھنا چاھتے ہیں”- یہی سب سے بڑا المیہ ہے کہ ہم مضبوط حصار میں رھ کر چوری کرنا چاہتے ہیں-

 دنیا اور ملکوں پر حکمرانی کرنے والوں کو لگتا ہے  کاربن گیس  کا اخراج  ، انسانی ذھن کے اندر سمائے گند  سے زیادہ خطرناک  ہے -حالانکہ دونوں یکساں نقصان پہنچا رھے ہیں – 

 ویسے تو ماحولیاتی  آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے نقصانات  پر قابو پانے کے لئے بھی کوئی خاص اقدامات نہیں ہو رھے- سب کچھ جوں کا توں چل رھا ہے- 

دنیا میں امن قا ئم کرنے والے تمام عالمی طاقتیں اور ادارے ،  افراتفری پھیلانے پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں- 

 ذھنی آلودگی کے تدراک کی بجائے اسے  بھی مزید تقویت دی جا رھی- انٹر نیٹ سے نہ صرف نفرت اور انتہاء پسندی کو ترویج دی جا رھی ہے بلکہ ترقی یافتہ ریاستیں باقاعدہ سائبر وار میں کود چکی ہیں –   جنگلوں میں لگی آگ، سیلاب ، درجہ حرارت کی زیادتی ان کو خود سے گرائے بموں، خودکش حملوں، کروڑوں بے گھروں ،  دو وقت کی روٹی اور پانی کو ترستے اربوں انسان، سائبر حملوں ، جنسی ہراسگی کا شکار ہونے والے کروڑوں بچوں اور عورتوں سے زیادہ خطرناک لگتے ہیں –   

ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں ھر سال اوسطا ۸۵ ھزار خواتین درندگی کا شکار ہوتی ہیں- امریکہ میں ہر چھٹی عورت جنسی ھراسگی کا شکار ہوتی ہے- بھارتی فورسز نے مقبوضہ کشمیر میں گیارہ ھزار خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنا چکے ہیں-

 فرانس میں ۱۹۸۰ تک ریپ جرم نہیں سمجھا جاتا تھا- اوسطا ھر سال پچھتر ھزار خواتین مردوں کی درندگی کا شکار بنتی ہیں- اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے لڑنے کے لئے پیرس کلب بھی فرانس نے ہی بنایا- رافیل طیاروں کی بھارت کو دھڑا دھڑ سپلائی بھی فرانس ہی کر رھا ہے- ایک پرائیویٹ ٹی چینل کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ۲۶ اضلاع میں پچھلے چار سال میں لگ بھگ ۳۷ ھزار خواتین کو اغواء کیا گیا- خیر ہم ماحولیاتی تبدیلیوں کے لئے بھی اتنے پریشان نہیں ہیں – 

انسانی ذہن کے پرتشدد رویے ، ظلم اور بربریت کی داستانیں  اور بپھرے دریاؤں کے سیلابی ریلے اور  جنگلوں میں لگی  آگ سب کا تدارک ضروری ھے – یہ دنیا interconnected ہے- ایک ریاست کا نقصان سب کا نقصان ہے- ذرا سوچئیے 

 –