پونے دو
انسانی ذہن کبھی خالص اور نمبر ون چیز کو فورا قبول نہیں کرتا- تجارت، میل ملاپ، لین دین میں "شک” انسان کا پہلا ردعمل ہے- کسی بھی معاملے میں اگر آپ پہلے مرحلے کو عبور کر لیں تو باقی مرحلے واجبی کاروائی ہے-آپ کسی بھی شخص کو پہلے دو نمبر چیز دکھایئں تو یہ پونے دو کو قبول کر لے گا-
سودا سلف لینے بازار جائیں تو بھاؤ تاؤ کرتے ہوئے جب آپ نرخ کم کرنے کا بولیں تو دوکاندار اکثر کہتے ہیں کہ سستے والی بھی ہے ، وہ لے جائیں – یعنی دوکاندار مکمل دو نمبر سے ڈرا کر پونے دونمبر بیچ دے گا –
انسانی نفسیات تقابلی جائزے سے جلد متاثر ہوتی ہے-
آپ مانیں یا نہ مانیں ترقی یافتہ ممالک کی یہ خوبی ہے کہ وہ کسی دوسرے ملک کے تیس پنتیس ھزار بچوں اور عورتوں کو بموں اور میزائیلوں سے اڑا دیں گے لیکن خوردنی اشیاء میں ملاوٹ نہیں کریں گے-
میں نے ایک دودھ بیچنے والے سے ڈرتے ڈرتے گزارش کی کہ بھائی دودھ میں پانی ضرور ملائیں، لیکن صاف پانی ملاؤ- اُس نے میری طرف حیرانی سے دیکھا اور بولا” ایدے وچ ھون اسی ہون nestle دا پانی ملا کے ویچئیے- کہاں سے لایئں صاف پانی” – اس کا شکوہ بجا ہے ، صاف پانی ہو گا کہیں تو وہ ملائے گا ناں – ویسے میرا تجزیہ ہے کہ مستقبل میں دودھ خالص ملے گا- اس کی وجہ یہ ہے پانی کہیں ملنا ہی نہیں ، نہ صاف نہ گدلا-
حکومت کے علاوہ پورا ملک ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھا رہا ہے- سرکاری اہلکار ابھی بھی بڑے بڑے کتابچوں اور رجسٹروں میں عوای مسائل کا حل تلاش کر رھے ہیں- اب تو بھکاری مافیا بھی ڈیٹا مائننگ تکنیک استعمال کر رھا ہے- ڈیٹا مائننگ سے رش اور منافع بخش کاروبار والی جگہ کا پتا چلا کر بھکاری کھڑا کرتے ہیں -ایک کباڑیا بتا رھا تھا کہ ھاتھوں ھاتھ بکنے والی چیز ” پرانی وھیل چیئر "ہے- بھکاری مافیا وھیل چیئر کو پونے دو کے طور پر استعمال کرتا ہے-
ٹریفک سگنل، یو ٹرن، مساجد، مشہور کھانے پینے والی جگہیں یا مال پلازے ہر جگہ پر موقع کی مناسبت سے مافیا نے مرد، عورتیں ، بچے کھڑے کئے ہوئے ہیں اور کہیں وہیل چئیر استعمال ہو رھی ھے– ٹریفک سگنل پر سبز اور سرخ بتی کے درمیانی وقفے میں انہوں نے بغیر کچھ بیچے سامنے والے سے کچھ نہ کچھ نکلوانا ہے- یہ سیلزمین کی مہارت کی اعلی ترین مثال ہے-
آپ گاڑی ٹھیک کروانے جائیں اور کوئی پرزہ ڈلوانا ہے تو مکینک اور دوکاندار باقاعدہ کھل کر آپ کو بتائیں گے یہ دو نمبر ہے اور یہ پونے دو-
دو نمبر اور پونے دو دراصل ایک ہی چیز ہے ، فرق صرف انسانی سوچ میں ہے جو اصل پر شک کرتی ہے اور پونے دو پر یقین-