مصنوعی ذھانت سب کچھ اڑا کر لے جائے گی-
انسانی ذھانت
انسانی ذھانت بالکل اپنی آخری سانسیں لے رہی ھے- ادھر تک پہنچنے میں اور کسی کا نہیں ، کمال بھی انسانی ذھن کا اپنا ہی ھے-
بس اور چند مہینے، پھر ساری آنیاں جانیاں ہمارے اپنے ہاتھوں سے بنائے روبوٹ کیا کریں گے- بہت سمجھایا، بزرگوں نے کہ بیٹا باز آ جاؤ اپنی حرکتوں سے لیکن، نہیں- اب بھگتو- اب ہماری باقی زندگی مصنوععی ذھانت کے حوالے- ابھی بھی حکمرانی Generative AI کی ہی ھے- ہمارے ہاتھ سے تو گیم کب کی نکل چکی ہے- پہلے بچے ہاتھوں سے نکلے، اب معاشی کنٹرول بھی گیا- ہمارے ہاتھ میں پکڑا موبائل اور اس کے اندر GPS, indrive, foodpanda، canva، capcut، graphics، پہلے ہی ہماری زندگیوں کو چلا رھے ہیں- کیا زمانہ تھا، تانگہ، سٹیم انجن، منی آرڈر، ٹیلیگرام، پاکستان ٹیلی ویژن کا قومی نشریاتی رابطے پر لائیو میچ ، روٹی کپڑا اور مکان- اب تو تعلیم اور صحت بھی آن لائن، بینکنگ آن لائن، منی آرڈر کی چھٹی، مبارکباد آن لائن، تیمارداری آن لائن ، جمعہ مبارک آئن لائن، کہیں کہیںں ھیپی ویک اینڈ کی آواز بھی آتی ھے آئن لائن- سب کچھ ہی AI کے سپرد ھے- فی الحال آرٹیفیشیل اینٹیلیجنس کو بیچنے والے پیسہ کما رھے ہیں- ڈیجیٹل سے مصنوعی ذھانت کا سفربرق رفتاری سے جاری ہے-
انسانی ذھانت اور مصنوعی ذھانت کا واضح فرق تو یہی ھے مصنوعی ذھانت جھوٹ بولنے اور مکرو فریب کی استطاعت نہیں رکھتی- یہ پاور hungry نہیں لیکن طاقت کا کھیل کھیلنے والوں کی آلہ کار ضرور ہے- یعنی یہ ھفتہ وصولی کا حساب رکھے گی- یہ آؤٹ آف کنڑول ہو سکتی ھے لیکن دھوکے باز نہیں- یہ بینکوں کے مالکان کو وصولی اور لین دین کا مکمل حساب کتاب آن لائن دے گی اور مالکان فوری فیصلے سناتے جائیں گے کہ اب اے ٹی ایم روک دو، اب ڈالر غائب کر دو، اب پانچ ھزار کے نوٹ میں نہیں سو روپے کے نوٹ میں پیمنٹ کرو، وغیرہ وغیرہ- پتا نہیں آپ لوگوں کو علم ھے کہ نہیں، اس دنیا کے اصلی حکمران، ” بینک مالکان ہیں”- پوری دنیا کا مال اسباب، اناج، سبزیاں، ہیرے اور سونے کی کانیں، زمین جائیدادیں ان سب کی قیمت بینکوں میں جمع ھے- یعنی سارے ڈالر، نوٹ ، ساری کرنسیوں کے اصلی مالک کون ہوا؟ بینک – جیسے جیسے مصنوعی ذھانت ترقی کرتی جائے گی "بینک طاقتور ہوتے جائیں گے”-
فنانشل سسٹم اس تیزی سے کام کرے گا کہ کچھ بھی ہو سکتا ھے- ڈالر، Yuan, پونڈ، لیرا ایک دوسرے کی شکل کب لے لیں کچھ پتا نہیں چل سکے گا- اگر MRI والی مشین انسانی جسم کے اندر تک سکین کر سکتی ھے تو پرنٹنگ مشین کسی بھی چیز نقل بنا سکے گی- چہرے کی پلاسٹک سرجری منٹوں میں ھو سکے گی- گھر اور عمارتیں گھنٹوں میں تعمیر ھونگے-
دودھ میں پانی ملانے والے دن گئے، اب پانی میں ہلکا پھلکا دودھ ملا کر بیچنے کے دن آ ن پہنچے- پہلے آپ کا گلہ تھا، دودھ خاص نہیں ملتا- اب آپ خالص پانی سے بھی جائیں گے- جس طریقے سے سائنس اور مصنوعی ذھانت ترقی کر رھی ھے کوئی بعید نہیں کہ آدھی گائے اور آدھا بکرا مل کر بڑے ھوں اور چھوٹے گوشت اور بڑے گوشت کا فرق بھی جاتا رہے- بوائلر اور دیسی مرغی میں اشتراک ہو جائے- تربوز اور خربوز ی کے کھیت تو پہلے ہی قریب قریب ہوتے ہیں-
آپ لوگ تیاری پکڑیں جہاز اڑنے والا ھے-