مصنوعی ذھانت ؛ معجزاتی ایجاد
کوڈک ایک بہت بڑی فلم اور فوٹو کمپنی تھی- کوڈک نے پہلا ڈیجیٹل کیمرہ بھی بنایا تھا-ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذھانت کو لمبے عرصے کے لئے adopt نہ کر سکے- اور ٹیکنالوجی کو ساتھ لے کر نہ چل سکے –
بلاک بسٹر اور نیٹ فلکیس دو مشہور زمانہ ویڈیو کمپنیاں تھی- بلاک بسٹر بند ھو گئی، نیٹ فلیکس آج نمبر ایک کمپنی ھے – فرق وہی سے جدید ٹیکنالوجی کو اپنانے کا-
نوکیا اور ایپل کا بھی یہی فرق ھے- ایپل بہت آگے نکل گیا-
سیئر sear اور amazon کا بھی یہی فرق ہے-
بڑی کمپنیاں مصنوعی ذہانت کو کلاؤڈ کمپیوٹنگ میں اخراجات کی کمی کے لئے استعمال کرتی ہیں – مصنوعی ذھانت سے مشورہ مل جاتا ھے-
آپ سوچیں، آپ کی طبیعت خراب ہے، آپ کا بلڈ پریشر نارمل نہیں لگ رھا-لیکن آپ کسی وجہ سے ہسپتال جانے سے قاصر ہیں- آپ اپنے گھر سے ہی ڈاکٹر سے رابطہ کر کے تشخیص کروا کر ، دوائی لے لیتے ہیں اور چند منٹوں میں طبیعت بحال ھو جاتی ہے-
ایک اور مثال لیتے ہیں- ایک ڈاکٹر کے سامنے مریض آیا اور اس کے تمام ٹیسٹ سامنے ہیں لیکن مرض کی تشخیص میں مشکل پیش آ رہی ھے- ڈاکٹر اپنے لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر پر ایک مصنوعی ذھانت والی ایپ کھولتا ہے- وہاں ملکی اور عالمی سطح پر اکٹھا کیا گیا ڈیٹا میچ کرتا ھے اور چند سیکنڈ میں مرض کی تشخیص ہو جاتی ھے-
جی یہ مصنوعی ذھانت کی بدولت ممکن ہو پائے گا نہیں بلکہ ہو رھا ہے-
آرٹیفیشل انٹیلیجنس یا مصنوعی ذھانت ایک معجزاتی ایجاد ہے- صحت کا شعبہ تو ایک مثال ھے- اس ٹیکنالوجی سے دنیا میں مزید بہت بڑے پیمانے پر تبدیل ہونے جا رہی ھے-
مصنوعی ذھانت کو اپنانا کس قدر ضروری ھے اس کا اندازہ ابھی سے ہی ہونا شروع ہو چکا ہے-
مصنوعی ذہانت ، ملکی ترقی اور عوامی بھلائی کا راستہ ہے-مصنوعی ذہانت نے دنیا میں معاشی ترقی کی نئی راہیں کھول دی ہیں- inclusive معاشی دور کی طرف ، یہ ایک اہم قدم ہے-اس میں سیٹھ بھی کمائے گا اور عوام بھی- مصنوعی ذہانت اپنانے سے حکومتوں پر بوجھ کم ہو گا-حکومتی عملداری موثر ہو گی- مصنوعی ذہانت destructive creative situation ہے- ہمارے جیسے ملک جو معاشی طور دنیا سے پیچھے رہ گئے یہ ان کے لئے ترقی کرنے کا بہترین موقع ہے-
۲۰۲۱ میں ایک معروف ،معیشیت کے متعلقہ تحقیق کے ادارے ،
کی ایک study کے مطابق پاکستان کے ترقی نہ کرنے کی بڑی وجہ analog صنعتی سسٹم ہے- معروف صنعتی خاندانوں کے وارث نئی اصلاحات کو اپنانے سے قاصر رہے اور اپنا معاشی مقام کھو بیٹھے- ۲۲ معروف خاندانوں میں سے صرف ۵ زمانے کی رفتار کے ساتھ چل پائے- آج اگر صنعتی میدان کی طرف نظر دوڑائیں تو پہلے پچاس کامیاب کاروباری حضرات وہ نہیں جو تین دھائیاں پہلے تھے- یہ مختلف سیکٹرز میں جدّت کو اپنانے والے لوگ ہیں-
پبلک سیکٹر بھی جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ نہ اٹھا سکا اور نتیجتا ہم ترقی کی رفتار میں پیچھے رہ گئے- اس کی واضح مثالیں پی آئی اے، ریلوے، سٹیل مل، اوجی ڈی سی ایل ہیں- دنیا کی تمام بڑی معیشیتیں پچھلی دو دہائیوں میں ابھر کر سامنے آئی ہیں- مغرب اب معاشی میدان میں مختلف قسم کے بحرانوں کا شکار ہے- چین جدیدیت کی علامت بن چکا ھے-
بیسویں صدی کی آخری پانچ دھائیوں میں قوموں کے لئے ترقی کے مواقع کم تھے کیونکہ ٹیکنالوجی کی ترقی کا محور ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس تھا- ۱۹۶۰ کے بعد صنعتی میدان میں صرف مغربی معاشرے تعلیم ، نشرو اشاعت، روڈ، ریلوے ، ایویشن میں ترقی کر پائے – اکیسویں صدی کے شروع سے لیکر ۲۰۱۰ تک باقی دنیا جدیدیت کے ساتھ آگے بڑھی لیکن ہم اس لکیر کو پار نہ کر پائے- 2011 سے ایک نئے دور کا آغاز ہو چکا ہے اور ہم پھر شش وپنج کا شکار ہیں-
۲۰۱۱ کے بعد سے مصنوعی ذھانت کا شور جاری ھے- ابھی مصنوعی ذھانت کی ابتدائی stage ہے- لیکن اگلے مرحلوں میں دنیا کے ساتھ ملنے کے لئے ابھی سے اس دوڑ میں شامل ہونا ضروری ھے-
ابھی تک کی مصنوعی ذھانت کی ترقی کا جائزہ لیں تو، ChatGPT، ویڈیو، آڈیو، ٹیلی کمیونیکیشن، انٹر نیٹ آف تھنگز، سپلائی چین میں ترقی ہو رھی ھے- سپر مصنوعی ذھانت تک پہنچنے میں وقت لگے گا لیکن ابھی تک کا سفر بھی حیران کن ھے-
مصنوعی ذھانت ترقی کا یہ عمل ڈیٹا سے جڑا ہوا ھے- ڈیٹا موجودہ دور کی کرنسی ھے- انٹر نیٹ کی وجہ سے اربوں کھربوں bit ڈیٹا روزانہ پیدا ھو رھا ھے جو کہ servers پر سٹور ہو رھا ھے- اس ڈیٹا کو analyze کر کے استعمال میں لایا جا رھا ہے- پہلے استعمال میں لانے کا عمل انسانی ذہن سے ہو رھا تھا- اب یہی عمل مصنوعی ذہانت استعمال کر کے برق رفتاری سے ہو رھا ہے- جو ڈیٹا کا استعمال بہتر کرنا سیکھ لے گا وہ سکندر ھے-
مارکیٹ میں روبوٹ آ گئے ہیں جو کہ فی الحال محدود پیمانے پر خود مختار ہیں، بجلی سے چلنے والی کاریں، ڈرونز، سرویلنس کیمرہ، HD کیمرے، 5D عینکیں، 3D سینما، ڈرائیور کے بغیر چلنے والی گاڑیاں، جدید ترین سی ٹی سکین، ایم آر آئی مشینیں، آن لائن سروسز، اے ٹی ایم، آئن لائن بینکنگ، او ایل ایکس ، بی این بی ایئر، ایزی پیسہ، ایزی لوڈ-
مصنوعی ذھانت کا سب سے زیادہ فائدہ، صحت اور تعلیم کے شعبے کو ہو رھا ھے- انقلابی تبدیلیاں آ رھی ہیں- جدید تعلیم ، آن لائن میسر ھو گئی ھے اور اس میدان میں مزید ترقی ہو رہی ھے بالکل ایسے ہی اب عام مریض کو ہسپتال آنے کی ضرورت نہیں ہو گی- مصنوعی ذہانت کے استعمال سے نوکریاں ختم نہیں ہونگی بلکہ نئی نوکریاں پیدا ھونگی لیکن اس کے لئے مصنوعی ذہانت میں استعمال ہونے والی کمپیوٹر ایپ کا سیکھنا ضروری ھے-
مصنوعی ذھانت کے دو شعبے ہیں ایک ٹیکنیکل یعنی آپ مصنوعی ذہانت بوالی چیزوں کو بنانے والے انجنئر ہیں- دوسرے ان چیزوں کو استعمال کرنے والے کاریگر- جہاز بنانا اور اڑانا دو مختلف شعبے ہیں- ایم آر آئی مشین بنانا، اسے استعمال کرنا اور رپورٹ کو سمجھنا تین مختلف بندوں کا کام ھے- مریض ہسپتال نہیں آئے گا لیکن دوائی تو ڈاکٹر ہی تجویز کرے گا-
یہ ایک مکمل پیکج ھے- جس میں ہر شخص کا رول ھے اور سب کو یکساں فائدہ ھو گا- لیکن اس کے لئے سسٹم کو adopt کرنا ضروری ھے- پبلک اور پرائیوٹ سیکٹر میں پہلے مصنوعی ذھانت کو اپنانے کی سوچ، پھر منصوبہ بندی اور پھر عملی جامہ – یہ ایک ترتیب ھے جس کو اپنانا ضروری ھے- جو لوگ مصنوعی ذھانت کو سیکھ کر آگے بڑھیں گے ان کا مقابلہ کرنا مشکل ہو گا-
اب وی لاگ اور یو ٹیوب چینلوں سے آگے نکلنے کا وقت ہے- سوشل میڈیا پر اپنا وقت ضائع نہ کریں