"لمحہ فکریہ”

فرصت ملے تو ذرا غور کر
اس پاک ارض -ے-دراز میں
کتنے ہی جانثاری کے نقش تھے
جنھیں آبدیدہ تو نے بنا دیا!!!
شام کے سائے ڈھلتے ھوے اچانک سے میری نظر جب گرتے ھوے ان چاھے سوکھے پتوں پڑی تو
جسم میں اک سرسراہٹ سی پیدا ھو گئی اور میرے نفس نے وجود کو کچھ اس طرح سے جھنجھوڑ ا کہ اک لمحہے کو مجھے ایسےلگنے لگا کہ بحیثیت پاکستانی ھم سب ان سوکھے پتوں کی مانند ہیں۔جو اپنی شاخ سے جدا ھو کر کس قدر بے حیثیت وبے وقت ھو گئے کہ ھوا کے دوش پر سوار ہرجگہ اڑتے پھر رہے ھیں۔انسان بھی اسی طرح اپنے اصل سے جدا ھو کر ،اپنے مدار سے نکل کر ،اپنے مقصد کو فراموش کر کے ان سوکھے پتوں کی سی مثال بن جاتا ھے دوسروں کے ھاتھ کی کٹ پتلی بن کر اپنے وجود کو کھوکھلا کرنے لگتا ھے۔ھمارے ملک کے حالات اور سیاستدانوں کے احوال اس بات کا منھ بولتا ثبوت ہیں ۔افسوس جس خاص مقصد کے لیے اس پاک سر زمین کو ان گنت قربانیوں سےحاصل کیا گیا وہ مقصد شاید کہیں کھو سا گیا ہے ھم اپنے اصل کو پس۔پشت ڈال آ ے ھیں۔ھمارے آباؤاجداد کی قربانیوں کا اجر ،ھمارے محسنوں کی محنتوں کا ثمر اور ھمارے شہیدوں کا خون آج اس آنکھ کو رایگاں ھوتا دکھائی دے رہا ھے۔افسوس کہ ہمارے آج کے نوجوان کے نزدیک یہ سب قصے کہانیوں کے سوا کچھ نہیں ۔یہ محض قصے کہانیاں نہیں تاریخ ہے۔ اک زندہ منہ بولتی تلخ تاریخ ۔
This is not a voyage of two miles..
This is not a voyage of some sacrifices..

This is a voyage of unlimited miles..
This is a voyage of uncountable sacrifices..
آج بحیثیت پاکستانی ہر شخص ان سوکھے پتوں کی مانند ادھر اُدھر بھٹک رہا ہے آج ہم اپنے ہی مدار کی جڑیں کاٹنے کو تیار ہیں۔اپنے ہی بھائیوں کے خون سے ہاتھ رنگنے کو تیار ہیں ۔اپنے ہی جانثاروں اور شہیدوں کی تذلیل کرنے کو تیار ہیں۔اپنے ہی شاہینوں کے پر کاٹنے کو تیار ہیں۔افسوس کہ اس خطہ ارض پہ اپنی بہادری اور ہیئت کاسکہ بٹھانے والے پاکستان کو آ ج دنیا تمخسر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ یہ لمحہ فکریہ ہے۔اج ہر شخص کو اک لمحے کے لیے اندر جھانکنے کی ضرورت ہےاور اپنا محاصبہ کر کے اپنے اندر تبدیلی لانے کی ضرورت ہے ۔کیونکہ revolution کسی شخص یا کسی رہنما کے بدلنے سے نہیں آتی revolution سوچ کے بدلنے سے آتی یے۔اک لمحے کو ذرا سوچیں خود کو بدلیں کیونکہ ۔یہ وطن عزیز اک عظیم امانت ہے۔

نہ منہصر کر غیروں پہ ذرا خود کو پہچان۔۔۔!
تو مرد مجاہد ہے،شاہین ہے اقبال کا۔۔۔!
The end