قیمت

‎قیمت ؛ برگیڈیئر عبدالرحمان تارڑ (ر) کی کتاب کا عنوان ہے – کتاب سوات کے علاقے خوازہ خیلا میں ایک یونٹ ( الاسد بٹالین ) کے دوسالہ اپریشن کی روداد ھے-
‏Tactical Level پر پاکستانی فوج نے دھشت گردی کے خلاف جنگ کیسے لڑی، یونٹ لیول کمانڈر ز کیا سوچتے تھے، اور دشمن چھپ کر کیسے وار کرتا تھا ، مقامی لوگ کیا سوچتے تھے، اس کی تفصیل جس انداز میں ” قیمت ” میں بیان کی گئی ہے اس سے بہتر بیان نہیں ہو سکتی- یہ ایک کیس سٹڈی ھے – خوازہ خیلہ کے علاقے میں لڑی جانے والی جنگ کی من وعن روداد بہت متاثر کُن اور دلیری سے بیان کی گئی کہانی ھے- دلیری سے لکھی گئی، کا مطلب ہے مصنف نے اپنی کمزوریوں اور کامیابیوں کا بغیر کسی ہچکچاہٹ سے ذکر کیا ھے-
یونٹ کا کمانڈنگ آفیسر فوج کی hierarchy میں سب سے مضبوط ادارہ ہے- برگیڈیئر ( ر) عبدالرحمان جو اس وقت لیفٹینٹ کرنل اور یونٹ کے کمانڈنگ آفیسر تھے ،انہوں نے چھوٹی چھوٹی جزئیات کی جس طرح عکاسی کی ہے، اس سے ان کے مشاہدے کی گہرائی اور الفاظ کی سچائی کا اندازہ ہوتا ہے- انہوں نے اپنے خدشات، دوسروں کے بارے میں اپنی رائے اور جس ماحول میں جنگ لڑی اسے بغیر لگی لپٹی رکھے انتہائی سادہ اور سلیس اردو میں بیان کر دیا ھے- وہ کوئی ڈائری لکھتے تھے یا محظ اپنی یاداشت کے سہارے کتاب لکھی ، جو کچھ بھی تھا، بہت قابل تعریف ہے کیونکہ کہانی میں بہت چھوٹی سے چھوٹی چیز کا ذکر بھی بہت تفصیل سے کیا گیا ہے- انہوں نے زمینی راستوں، جنگ لڑنے والے کرداروں ، دہشت گردی میں ملوث مجرم اور ان کے سہولت کار، ان سب کی نقشہ نگاری میں بہت محنت سے کی جو کہ متاثر کن ھے-
اس جنگ کی نوعیت ہی بے ربط ہے – کچھ بھی واضح نہیں تھا- نہ دشمن، نہ اس کا منصوبہ، نہ صلاحیت- عوامی رائے تذبذب کا شکار تھی اور ملکی قیادت شش و پنج کا شکار- کتاب میں قیادت کے ذہن میں ابہام کا بار بار ذکر ھے، یہی اس جنگ میں پاکستان کی مشکلات کا سبب بنا- قیادت سے مراد حکومت ہے-مقامی لوگ دہشت گردوں کے ہاتھوں اور پھرملٹری اپریشنز کی وجہ سےکن مشکلات کا شکار ہوئے، مصنف نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے بیان کیا ھے- حتی کہ انہوں نے اپریشنز کے دوران اپنے خدشات، خوف اور جوش و ولولے کو بھی نہی چھپایا-
مصنف نے عا لمی حالات کا بھی تزکرہ کیا ھے- جو کہ ان کی ذاتی رائے ہے، ظاہر ہے وہ اس کے چشم دید گواہ نہیں ، وہ محظ تجزیہ ھے-
میدان جنگ سے کسی سپاھی کے شاید یہ پہلے یا دوسرے documented الفاظ ہیں- نوجوان افسروں اور یونیورسٹی طلباء کو "گوریلا جنگ” سے واقفیت کے حوالے سے یہ کتاب ضرور پڑنی چاھیے- بہت کم کتب ہیں جو میدان جنگ کا احوال اور جزئیات کو بیان کرتی ہیں- وار کرونیکلز اور وہ بھی دھشت گردی کی جنگ سے متعلقہ بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں- یہ تحقیقی مقالہ لکھنے والوں کے لئے gold mine ھے- اس کتاب کو پڑھنے سے دھشت گردی کی جنگ کو سمجھنے میں بہت مدد ملے گی-
کتاب کے تین چیپٹر ؛ قیادت، ماحول اور ترجیحات سے ، ملٹری کمانڈرز ،جو جنگ کی حکمت عملی کے ذمے دار ہیں، ان کو ضرور ان مطالعہ کرنا چاہیے-
سوات میں لڑی جانے والی جنگ کے ایک محدود علاقے کی کہانی دراصل پوری جنگ کی پیچیدگیوں اور اس سے ھونے والے نقصان اور شجاعت کی کہانی ہے- اسی طرح کے ہزاروں اپریشنز پاک افغان کے ساتھ دوہزار کلومیٹر کے علاقے میں لڑے جارھے تھے –
واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کو دشمن عرصہ دراز سے تیاری کروا رھا تھا جسے ملکی قیادت دیکھ نہ سکی اور اس کی بھاری قیمت ، قوم کو ادا کرنا پڑی-
” گمان” اس جنگ میں عوامی حمایت حاصل کرنے میں سب سے بڑی روکاوٹ بنا- میڈیا نے اس گمان کو مزید ھوا دی اور قوم کی تقسیم ہوتی سوچ نے جنگی معرکوں میں کامیابی کو مشکل بنا دیا-
جنرل اشفاق پرویز کیانی جب آرمی چیف بنے تو انہوں نے روایتی جنگ میں مہارت رکھنے والی پاک فوج کو غیر روایتی جنگ لڑنے کے لئے تیار کیا- تربیت، سازوسامان، سول ملٹری ریلیشنز میں بہتری پر توجہ دی اور پاک فوج نے کامیابی سے دشمن کا قلعہ قمع کیا اور کامیابی سے اپریشنز کر رہی ھے-
مجموعی طور پر یہ ایک یونٹ کمانڈڑ کے میدان جنگ سے تجربات کی کہانی ہے جو نہ صرف خود دلیری سے لڑا بلکہ دلیری سے لڑنے والوں سے inspire بھی ہوتا رھا اور ان سے سیکھتا بھی رھا- ” فیصلہ کن” کے عنوان سے چیپٹر الاسد بٹالین کی جوانمردی سے لڑی گشکوڑ کی لڑائی کی خون گرما دینے والی داستان بہت تفصیل سے گوریلا وار کی جزئیات کی مکمل تفصیل ھے- یہ بہت مشکل اپریشن تھا جسے یونٹ نے جان جوکھوں سے پورا کیا-
یہ کتاب بہت سے حوالوں سے پڑھے جانے کے لائق ہے- یہ تاریخ بھی ھے، من و عن جنگ کی کہانی بھی، جرآت و بیباکی کی داستان بھی، غلطیوں کا اعتراف بھی، زمینی حقائق اور الفاظ کی سچائی بھی- شروع سے آخر تک متاثر کن تصنیف ہے، جسے بہت محنت اور اعلی معیار سے لکھا اور ترتیب دیا گیا ھے-