"فخر ” اور ” شرمندگی”
شرمندگی اور فخر دو بہت ہی کثرت سے استعمال ہونے والے لفظ ہیں- بڑے لوگ "فخر” کا لفظ کثرت سے استعمال کرتے ہیں – انہیں ہر کام پر فخر ہوتا ہے جیسا کہ الیکشن میں کھڑا ہونا، جیت جانا، منسٹر بننا، دفتر جانا، گھر واپس آنا ، سڑکیں، سکول، ہسپتال کے افتتاح کی تختیاں لگوانا، عوام سے ہاتھ ملاتے ہوئے صرف انگلیاں آگے کرنا، گلے نہ ملنا، وغیرہ وغیرہ- یہ بڑے صاحب کےفخریہ لمحات ہوتے ہیں-
شرمندگی کا لفظ صرف متوسط اور ان سے بھی نیچے طبقے کے لئے ہے- ” میں شرمندہ ہوں بیٹا تمہیں اعلی تعلیم نہ دلوا سکا”- ” میں شرمندہ ہوں میری بیٹی، تمہیں جہیز میں کچھ زیادہ نہ دے سکا”، "میں شرمندہ ہوں، آج تھوڑا لیٹ ہو گیا”، "سر میں شرمندہ ہوں میری والدہ بیمار ہیں ، کچھ ایڈوانس چاہیے "، وغیرہ وغیرہ – عام آدمی تو شرمندہ ہونے کے لئے موقع کی تلاش میں ہوتا ہے – اور عام آدمی کی یہی "شرمندگی ” بڑے لوگوں کا "فخر ” بھی ہے اور طاقت بھی- اسی لئے کہتے ہیں عوام طاقت کا سر چشمہ ہیں-
اقوام متحدہ، نیٹو، برکس، اوپیک ، ریاستی قانون، ادارے، تنظیمیں ، گروہ یہ پیکنگ میٹیریل کے نام ہیں – اقوام متحدہ دنیا کو امن بیچ رہا ہے- انۓرنیشنل کورٹ آف جسٹس انصاف بیچ رہی ہے، ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف ، خوش حالی بیچ رھے ہیں، نیٹو، یورپی عوام کو روس کے خلاف تحفظ بیچ رہا ہے- اسی طرح ان سب کے اندر جھوٹے نعرروں ، غلط حساب کتاب ، اور فریب کو ترتیب سے پیکٹ میں بند کر کے عام آدمی کو بیچا جاتا ہے- پہلے میڈیا سیلز مین تھا – اب سوشل میڈیا نے بیانہ پکڑ لیا ہے- بڑی بڑی کمپنیوں اور بینکوں نے دنیا پر قبضہ کر رکھا ہے- ہم جن چھوٹی چھوٹی چوریوں کو زیر بحث لاتے ہیں یا جن کا ہمیں علم ہو سکا ہے یہ پانی کا ایک قطرہ ہے- دنیا میں صرف چند بڑے لوگوں کے پاس 31 کھرب ڈالر ہیں اور ان کو اس پر فخر ہے- شرمندگی تو ہمیں ہے کہ ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں-
حکومتوں اور اداروں کو اپنے سیلزمین چن کے رکھنے چاہیں- مال بھلے اچھا نہ بھی ہو، کم از کم مارکیٹنگ تو بہترین ہونی چاہیے-
یہ برانڈنگ کا دور ہے- اپنی پراڈکٹ کو بیچنے کے لئے ڈھنگ کے الفاظ چنیں، سٹوری اچھی بنائیں – مارکیٹ میں audience بہت تیز ہے اور ان کی ترجیحات ہر لمحہ تبدیل ہوتی رہتی ہیں- کہتے ہیں سٹوری ہی سب کچھ ہے- گالی بھی ڈھنگ سے دی جائے تو سننے والا کورنش بجا لاتا ہے-
اولمپکس دنیا کا سب سے بڑا انٹرٹینمنٹ کا میلہ ہے- صرف ایک چھوٹے سے ایونٹ میں drag queen اور divinci کی تصویرنے اتنے بڑے پلیٹ فارم کے نتائج پر دوررس اثرات چھوڑے ہیں-
اسّی (۱۹۸۰) کی دھائی میں لاھور اور کراچی میں تھیٹر نے جگت بازی کی بہت پرورش کی– کراچی میں توجگت بازی ، جملے کسنے تک محدود رہی لیکن لاھور میں بات پھکڑ بازی تک پہنچ گئی– پھر ملک میں جبپرائیویٹ ٹی وی شروع ھوا تو جگت بازی تھیٹر سے نکل کر ٹی وی پر آ گئی– تھیٹر ویران ہو گیا– standing comedy کا رواج چل نکلا ہے- جو کہ یو ٹیوب پر دھا دھڑ بک بھی رہا ھے-
موجودہ دور کا المیہ یہ ہے کہ بڑی مچھلیاں برانڈنگ کے زور پر چھوٹی مچھلیوں کو ہڑپ کرتی جا رہی ہیں- اس لئے اپنے برانڈ کی حفاظت آپ کی اولین ترجیح ہونی چاہیے –
۰-۰-۰-۰-۰-۰-
ڈاکٹر عتیق الرحمان