طرز حکمرانی
ہمیں لگتا ھے کہ آئی ایم ایف والے ہمارے ساتھ شرارتیں کر رھے ہیں -وہ ھمیں تنگ نہیں کر رھے بلکہ ہمیں منظم معاشروں کی طرح رھنے کا سلیقہ سکھانا چاھتے ہیں- لیکن وہ ہمیں اسی آئینے سے دیکھ رھےہیں جو ان کے اپنے معاشرے کا خاصہ ھے- مغربی معاشروں میں دفتری، نوکر، مالی، ڈرائیور، سرکاری رھائش گاہ ، باورچی، گریڈ بیس سے اوپر سرکاری گاڑی کا کوئی تصور نہیں- حتی کہ امیر طبقہ بھی گھر کے برتن خود دھوتا ہے – مغرب میں مشینی سہولتیں ضرور ہیں مگر کام کرنے کے لئے مزارع اور کمی نہیں ھوتے- وہ سارے کمی ہیں- حتی کہ پٹرول بھی گاڑی سے اتر کر خود بھرتے ہیں – حکومتی مشینری ڈیجیٹل ھے اور سافٹ ویئرز کے ذریعے حکومت چلاتی ھے-
ھم نے بھی بجلی چوری روکنے کے لئے جو قانون کی حکمرانی کا تجربہ کیا ھے وہ کامیاب جا رھا ھے- ڈالر کی اڑان اور سمگلنگ پر قابو پانے کے لئے اقدامات کا خاطر خواہ نتیجہ نکلا ھے-
حکمرانی کا سادہ سا کلیہ ھے ، بحثیت حکمران اگر کوئی عوامی مفاد کا فیصلہ کرنا ھو تو اپنے مفاد کو ایک طرف کر دیں – اگر قوم کو قانون کی پاسداری ، اخلاقیات یا قربانی دینے کی بات کرنی ھو تو اپنے آپ کو سب سے آگے رکھیں –
کل میں سے جز کو اٹھا کر ٹھیک نہیں کر سکتے ، خواہ مخواہ وقت اور پیسے ضائع مت کریں – معروضی حالات کا جائزہ لے کر، ماھرین کو رائے کو مقدم رکھیں اور کل وقتی فیصلے کریں – ہر فیصلے میں عوامی مفاد کے ساتھ ساتھ ، عوامی شعور کو اجاگر کرنے کی سعی کرتے رھیں – ہسپتال یا سرکاری دفاتر کے دورے ڈنگ ٹپاؤ پالیسی ھے- نظام کو اندر سے ٹھیک کریں اور اس کا بہترین حل ، جزا اور سزا ہے- – پبلک اکاؤنٹس کمیٹی دو سال پرانے اخراجات کا حساب کتاب کرتی ھے- وہ بھی بجا ھے لیکن ریاستی وسائل کے استعمال کا ۲۴/۷ جائزہ لینے کا طریقہ کار ڈھونڈیں- موجودہ دور میں یہ بالکل آسان ھے ، ڈیش بورڈ بنوائیں ، جو جہاں، جتنا خرچ کر رھا ھے فورا پتا چل جائے گا- پبلک ، پرائیویٹ پارٹنر شپ سب سے کمزور پہلو ھے- پرائیویٹ سیکٹر صرف نفع دیکھتا ھے اور پبلک سیکٹر اوپر کی کمائی دیکھتا ہے- دونوں مل کر گڑ بڑ کرتے ھیں – یعنی ” ٹھیکیدار” ، ذخیرہ اندوز، صنعت کار مکمل طور پر مروجہ قوانین سے انحراف کرتے ہیں- مارکیٹ اکانومی میں حکومتی دخل اندازی نہیں ھونی چاھیے لیکن ٹھیکیداروں کو مروجہ قانون کی پاسداری تو کرنی چاھیے – لوٹ مار پرچون کی ھو یا تھوک کی ، دونوں صورتوں میں عوام پستی ھے-مانیٹڑنگ کا طریقہ وھی ڈیش بورڈ ہے-
جب عالمی سطح پر اپنی ریاست کا مقدمہ لڑنے جائیں تو ضدی بچے کی طرح ریاست کے مفاد ات کا دفاع کریں- عالمی حکمران پوری تیاری کر کے آتے ہیں- ان کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لئے اسی سطح تک با علم ھونا پڑے گا ورنہ ایک روپے کی چیز پچیس پیسے میں بک جائے گی-