سیاسی اور ادبی شہ پارے
سیاست اور ادب دو مختلف چیزیں ہیں۔ سیا ستدان اور ادیب ایک دوسرے کو منہ نھی لگاتے۔ لیکن ایسا بھی نھیں کہ دونوں کا ذکر اکٹھے نھی ھو سکتا۔سیاست بگاڑ ھے تو ادب سلجھاؤ، سیاست بے یقینی ھے تو ادب امید، ھاں البتہ ادب اور سیاست میں مزاح ایک مرکزی نقطہ ھے ۔ ھمارے ھاں تو سیاست ویسے بھی ” مزاح "سے آگے نھیں بڑھ پائی۔
سوشل میڈیا میں آجکل ایک رواج عام ھے کہ اپ اگر کسی کو پسند نھی کرتے تو اس کی تصویر پوسٹ کر کے لکھ دیں کہ ” اس کے بارے میں آپ کی رائے”۔ اب یہ تو بتانے کی ضرورت نھیں کہ ھماری ایک دوسرے کے بارے میں کیا رائے ھے –
میں نے سنا ھے کہ دنیا کی ھر فلم انڈسٹری میں میراجی اور راکھی ساونت ، اور پارلیمنٹ میں تین چار لالو پرشاد، ضرور ھوتے ہیں جو جگتیں لگا کر ڈنگ ٹپاتے ہیں۔سیاست اور ادب میں بڑے بڑے نام ابھی ناپید ھوتے جارھے ہیں- برصغیر میں اردو ادب نے معاشرے کی تشکیل میں نمایاں کردار ادا کیا ہے- جب سے اردو ادب ھمارے ھاں سے غائب ھوا ہے تب سے اخلاقیات، رواداری اور اپنائیت بھی روٹھ گئی ھے- بھارت میں تو ھندو انتہاء پسندوں نے اس خلاء کو خوب پر کیا ہے- ھمارے ھاں البتہ ابھی کوشش ھو رھی ھے- اگر اردو ادب کہیں مل جائے تو کوشش کر کے اسے ھمارے ھاں تھوڑی دیر کے لئے لے آئیں ورنہ سوشل میڈیا باہر بیٹھا انتظار کر رھا ھے- مغرب میں البتہ ٹرمپ اور جانسن کی موجودگی کے باوجود انگلش لٹریچر کو بہت پزیرائی ملی ھے – پاؤلو کولیھو ، نوم چومسکی، سٹیفن کووی، اور بہت سے دوسروں نے ادب کو سنبھال رکھا ھے-سیاست میں البتہ ان کو بھی مشکلات کا سامنا ھے- اتنے منظم معاشرے کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ اگر معمولات یا مراعات میں تھوڑا سا خلل بھی آ جائے تو پریشان ھو کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں- کمزور معاشروں کی یہی خامی ہے کہ انسانی حقوق کا بہت خیال رکھتے ہیں- ھمارے ہاں دیکھیں تین کروڑ سے زیادہ افراد سیلاب سے متاثر ہیں لیکن ہماری ساری توجہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں صرف ھو رھی ھے-