سوشل میڈیا – نعمت یا لعنت
ڈاکٹر عتیق الرحمن
سوشل میڈیا آج کی دنیا میں ایسا انقلاب ہے جس نے ہماری زندگیوں کو مثبت اور منفی دونوں لحاظ سے بدل کر رکھ دیا ہے۔ اس نے ایک طرف جہاں ایک دوسرے سے رابطہ کاری کو آسان بنا دیا ہے وہیں بہت سے دوسرے سوشل ایشوز کو بھی الجھا دیا ہے۔ نئے میڈیا پلیٹ فارمز، جن میں فیس بک، ٹویٹر، یوٹیوب، اور انسٹاگرام شامل ہیں، وسیع پیمانے پر ڈس انفارمیشن پھیلانے کے طاقتور آلہ کار بن چکے ہیں۔ ان پلیٹ فارمز کے منتظمین کی جانب سے ریاستوں، اداروں اور افراد کے خلاف اپنے اپنے پلیٹ فارمز پر جاری نفرت انگیز تقاریر اورغلط معلومات کو کنٹرول کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ کوشش دیکھنے کو نہیں ملتی۔
چند روز قبل یہ خبر سامنے آئی کہ تین بچوں کی ماں، ایک 35 سالہ خاتون نے اس وجہ سے خودکشی کرلی کہ کسی نے اس کی طبی معائنے کی تصاویر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ اور شیئر کر دی تھیں۔ سوشل میڈیا کے غلط استعمال کے بارے میں منظرعام پر آنے والی ایسے سینکڑوں واقعات میں سے یہ ایک ہے جبکہ آن لائن مالی اور تعلیمی فراڈ، ہیکنگ، سائبر حملوں اور پروپیگنڈے کے بارے میں سینکڑوں کہانیاں جابجا بکھری پڑی ہیں۔
یوکے ڈیلی کی ایک رپورٹ کے مطابق سوشل میڈیا سے متعلق جرائم میں پچھلے چند سالوں میں 780 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل ٹولز ہماری زندگی کا ایک لازمی حصہ بن چکے ہیں۔ ان کی افادیت کے بارے میں بھی کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں۔ جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ کووڈ19 کے دوران، سوشل رابطے کو برقرار رکھنے اور وبائی امراض سے متعلق اپ ڈیٹس حاصل کرنے کے لیے سوشل میڈیا ایک مددگار ذریعہ تھا۔ تاہم آج کل گھر سے کام کرنے اور آن لائن ترسیل کا نیا کلچر ایک وبائی مرض جیسا ہی ہے۔ جیسا کہ جڑواں شہروں میں پریکٹس کرنے والے ایک ماہر نفسیات نے بتایا کہ 25 فیصد خواتین مریضوں کو کسی نہ کسی طریقے سے آن لائن ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ڈیجیٹل ورلڈ نے عام آدمی کو ذمہ دار شہری بنائے بغیر اسے بااختیاراور طاقتور بنا دیا ہے۔
سوشل میڈیا کے آ جانے سے ایسا لگتا ہے کہ انسانی زندگی بے پردہ ہوگئی ہے۔ اب کوئی بھی چیز خفیہ یا پوشیدہ نہیں رہی۔ انسانی سرگرمیوں سے حاصل شدہ ڈیٹا کو طاقتور کمپیوٹرز کے ذریعے محفوظ کرکے ان کا تجزیہ کیا جا رہا ہے۔ ان معلومات کو بڑے بڑے برانڈز کو فروخت کردیا جاتا ہے جنہیں استعمال کرکے وہ صارفین کی ترجیحات کے بارے میں جان سکتے ہیں۔ ہماری سیاسی ترجیحات اور پسندوناپسند ہمارے رویوں کی نشاندہی کرتی ہیں جسے یہ طاقتور کمپیوٹرز الگورتھم کے ذریعے محفوظ بنا لیتے ہیں۔ یہ ترجیحات سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں جیتنے کے سلسلے میں انتہائی مدد گار ہیں۔ اس طرح سوشل میڈیا پر ظاہر کیے جانے والے ہمارے بیہودہ رویوں نے ہمارے معاشرے کے سارے تانے بانے کو خطرے سے دوچار کردیا ہے۔ اسی صورتحال کے پیش نظر بڑی جمہوریتوں اور منظم معاشروں میں بے لگام سائبر ورلڈ کو لگام ڈالنے کے لیے اصول و ضوابط وضع کرنے کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ اسی لیے وہاں کے افراد، حکومتیں، تعلیم، تجارت، ٹیلی کمیونیکیشن، خارجہ تعلقات اور زندگی کے تمام شعبے اس سلسلے میں سنجیدہ طور پرغوروحوض کررہے ہیں۔
یہ سچ ہے کہ اگر سوشل میڈیا کو قوانین کے ذریعے منظم نہیں کیا گیا تو یہ اپنی افادیت کھونے کے ساتھ ساتھ ایک بے لگام گھوڑے کی طرح معلومات کی دنیا میں تباہی مچا دے گا۔ ماضی قریب میں، ہم نے دیکھا کہ سوشل میڈیا کے منظم سیٹ اپ قائم کر کے ان کے ذریعے ڈس انفرمیشن پھیلائی گئی اورعوام کو گمراہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان میں بے چینی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ ایک عالمی سطح پر پھیلی ایسی جنگ ہے، جس میں درجنوں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور انہیں استعمال کرتے لاکھوں افراد ایک دوسرے کے مد مقابل ہوتے ہیں۔ اس طرح ان منظم ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے صرف سیاسی لڑائیاں ہی نہیں بلکہ شورشیں، تنازعات اور انسانی حقوق کی جنگیں بھی لڑی جارہی ہیں۔
آج کے دور میں، لوگ، حقیقت پر مبنی معروضی معلومات پر بھروسہ کرنے کی بجائے ایسی باتوں پرزیادہ یقین کرتے ہیں جو ان کے جذبات اور ان کے ذاتی عقائد سے مطابقت رکھتی ہوں۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ لوگ منطق و استدلال کے برخلاف ذاتی رجحان کے مطابق خبریں اور معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے رجحانات جسے ہم POST TRUTH REALITY کہتے ہیں، دراصل غلط معلومات کے پھیلاؤ کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ پاکستان میں سیاسی خبریں ہمیشہ کی طرح سب امور پر غالب اور ہرشخص کے اعصاب پر سوار رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی مباحثے اسی کے گرد گھومتے نظر آتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے آلہ کار اپنی مرضی سے دلائل، گرافکس، تصویروں اور ویڈیوز بنا کر رائے عامہ کو اپنے حق میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں اور اسی مواد کو پوری دنیا میں پھیلاتے بھی رہتے ہیں۔ کسی بھی نازک صورتحال میں، معلومات کا یہ سایہ پلک جھپکنے میں اتنا گھنا ہو جاتا ہے کہ کسی بھی چیز کا احساس کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ایسی صورتحال "انفارمیشن ڈس آرڈر” کہلاتی ہے۔
سیاسی رہنماؤں کی جانب سے دعوے اور زور و شور کے ساتھ جان بوجھ کر "ڈس انفرمیشن” کا استعمال معاشرے میں انتشار اور عدم توازن کو جنم دے رہا ہے۔ ڈس انفرمیشن کے ذریعے اپنے مقاصد کا حصول انتہائی خوفناک عمل ہے۔ کوئی نامعلوم شخص سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر کوئی من گھڑت خبرشائع کرتا ہے جسے ٹرول فارمز جنگل کی آگ کی طرح پھیلاتے چلے جاتے ہیں۔ متنازعہ ہیش ٹیگ (#) مختلف افراد، تنظیموں اور سیاسی مخالفین کو بدنام کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔
ایک مقامی ٹیلی ویژن نے چند ہفتے قبل اطلاع دی کہ جولائی اور اگست کے دوران فوج کے خلاف اکیس ہیش ٹیگز کے لیے 4.86 ملین ٹویٹس کی گئیں۔ یہ سیکورٹی فورسز کے خلاف رائے عامہ کو متاثر کرنے کے لیے ایک گندی اور توہین آمیز مہم تھی۔
انڈین کرانیکلز، ایک عالمی سازش، جسے برسلز میں EU ڈس انفو لیب نے 2020 میں بے نقاب کیا تھا۔ یہ ایک ریاستی سپانسر شدہ پروپیگنڈہ نیٹ ورک تھا جو بھارت کی طرف سے دنیا بھر میں ان ریاستوں کے خلاف قائم کیا گیا تھا جو بھارتی پالیسیوں سے اتفاق نہیں رکھتے۔ جعلی ویب سائیٹس، این جی اوز اور نیوز ایجنسیوں پر مبنی یہ نیٹ ورک 2005 سے کام کر رہا تھا اور اب بھی کسی نہ کسی طرح متحرک ہے۔ انڈین کرونیکلز کو دنیا بھر میں منظم جعلی خبریں بنانے اور پھیلانے کا سب سے بڑا نیٹ ورک قرار دیا جا چکا ہے۔
جیسا کہ میں پہلے بیان کرچکا ہوں کہ ڈیجیٹل ورلڈ نے عام آدمی کو ذمہ دار شہری بنائے بغیر اسے بااختیاراور طاقتور بنا دیا ہے۔ دیکھا جائے تو یہی سے معاشرے اور ریاست کے لیے مسائل کا آغاز ہو جاتا ہے۔ غلط معلومات کا مقصد ہمیشہ دوسرے افراد یا اداروں کو بدنام کرنا ہوتا ہے۔
اسلام آباد کے ایک تھنک ٹینک نے یکم دسمبر 2021 سے 20 اپریل 2022 تک ہر چار گھنٹے بعد پاکستان ٹویٹر پینل پر ٹاپ پانچ ہیش ٹیگز کا تجزیہ کیا۔ نمونے میں 3356 ہیش ٹیگز شامل تھے۔ ان کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ تمام سیاسی رجحانات میں سے 87 فیصد سے زیادہ جانبدار جماعتی سیاست کے گرد گھومتے تھے، اس کے بعد عدلیہ سے متعلق رجحانات نو فیصد اور سول۔ملٹری سے متعلق چار فیصد تھے۔ ڈیٹا کے تجزیے سے یہ بات سامنے آئی کہ دو بڑی سیاسی جماعتوں نے 300 سے زائد ہیش ٹیگز کے ساتھ ٹویٹر پرغلبہ حاصل کیا۔ ان میں سے زیادہ تر خیالات متعصبانہ سیاست پر مبنی تھے۔ دوسرا سب سے زیادہ چلنے والا ہیش ٹیگ سپریم کورٹ تھا جو عدلیہ کے سیاست زدہ ہونے کی نشاندہی کرتا ہے جس کے نتیجے میں آج کے سیاسی بحران میں وہ ہدف تنقید کا مرکز بنی نظر آتی ہے۔ تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ٹوئٹر کی سرگرمی کو بھارتی ٹرولز کی حمایت بھی حاصل رہی۔
ایک اور تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان سے متعلق بھارتی انفارمیشن آپریشنز میں گزشتہ سال ایک اسٹریٹجک تبدیلی عمل میں لائی گئی جس کے بعد اب اس نے کثیر جہتی حکمت عملی اپنائی ہے۔ جس کے تحت ایک طرف ہندوستان کے زیر قبضہ کشمیر میں ہندوستانی فوجی کارروائیوں کو مثبت امیج کے طور پر فروغ دینا ہے تو دوسری طرف پاکستان کے اندر BLA اور TTP کی سرگرمیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ہے۔ مندرجہ بالا مکروہ اہداف مختلف طریقوں تکنیکوں، ذرائع اور بیانیے کے ذریعے ماہر افراد مدد سے حاصل کیے جارہے ہیں۔
حکومت کے ڈیجیٹل میڈیا ونگ کی طرف سے کی گئی ایک اور تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان اور افغانستان کی خفیہ ایجنسیاں ایف اے ٹی ایف حکام پر اثرانداز ہونے کے لیے پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے مل کر کام کر رہی ہیں۔ یہ انہی کی سازشوں کا نتیجہ تھا کہ پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈال دیا گیا ہے۔ ان کی طرف سے سازشوں کا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
ریاست کے لیے معاشرتی انتشار سے بڑا کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ پاکستان میں اس وقت جو صورتحال پیدا ہورہی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت سوشل میڈیا کے بے لگام استعمال کو اصولوں اور ضابطوں کے دائرے میں لانے کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھائے۔