سوشل میڈیا

تحریر: عتیق الرحمان

ہم اس دور میں زندہ ہیں جہاں لوگ گاڑی چلاتے ہوئے موبائل میسج بغور  پڑھتے ہیں اور ڈرائیونگ اندازے سے کرتے ہیں۔ ہر چیز آن لائن ڈلیور ہو رہی ہے سوائے نو مولود کے۔ یوول نوواحریری کے مطابق بائیوٹیک اگر اسی طرح  ترقی کرتی کرہی تو شاید یہ بھی ممکن ہو سکے۔ یو ٹیوب نے بے تکا، بولنے کے رجحان کو ترقی دی ہے۔ ان بے معنی بولنے کے نہ صرف پیسے ملتے ہیں بلکہ لوگ عزت بھی کرتے ہیں۔ کیا بولنا ہے اس کی قدعن نہی، شرط صرف بولنے کی ہے۔ کمپیوٹر ہم امپورٹ کرتے ہیں لیکن وی لاگرز میں ہم خود کفیل ہیں، میری طرح جو پڑھائی میں پیچھے  رہ گئے تھے۔ اب موقع ملا ہے کہ بول کر کسر پوری کرلیں۔ موبائل کا سب سے زیادہ فا ئدہ اولڈ ایج والوں کو ہوا ہے۔بزرگوں کو اب اولڈ ہومز میں لے جانے کی ضرورت نہیں ہے ، بس ان کے ہاتھ میں موبائل تھما دیں ، تفریح کا سامان وہ خود پیدا کر لیں گے۔ گئے وقتوں میں جتنی لغویات اور بے راہ روی والے کاموں  سے منع کیا جا تا تھا، موجودہ دور میں وہ ون ونڈو اپریشن یعنی ایک ہی آلے کے اندر  ایپس کے نام سے موجود ہیں۔ شاعروں کے کم ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب محبوب تک رسائی ۲۴/۷ ممکن ہے۔ بلکہ محبوب دن میں  تین چار بار سیلفی بھی بھیجتا ہے۔ اخبارات، ٹی وی، رسٹ واچ، کیمرے، پین، ریڈیو، ان سب کو موبائل کھا گیا ہے۔ یہ راز بھی اب افشاں ہوا ہے کہ عورتیں  کو بھی شرارت اتنی ہی پسند ہے جتنی مردوں کو، صرف موقع ملنا چاہیے۔ شادی بیاہ میں گانا بجانے والے جگتیں سنا کر روزی روٹی کماتے تھے۔ اب یہ کام بھی موبائل کے ذمے آن لگا ہے۔ سوشل میڈیا نے دنیا کو بالکل نیا نویلا کر دیا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہر چیز میں جدت اور اجنبیت آ گئی ہے۔ لوگ بول تو ہر طرف سے رہے ، لیکن نہ کچھ سمجھ آ رہا ہے نہ سنائی دے رہا۔