دل صاحبِ انصاف سے انصاف طلب ہے

ہم لوگوں نے بڑے خلوص اور جذبے سے 2013ء اور 2018ء میں تحریک انصاف کو ووٹ دیے تھے۔ ذاتی فائدے اٹھانے ہوتے تو مسلم لیگ (ن) سے بہتر زمانہ مجھے نہیں مل سکتا تھا مگر میں بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح مدتِ مدید سے اس بات کا خواہش مند تھا کہ کوئی ایسی پارٹی برسر اقتدار آئے جو ملک کے اجتماعی مفاد کے لیے کام کرے، چنانچہ جب تین ساڑھے تین سال پہلے عمران خان کی سربراہی میں تحریک انصاف برسر اقتدار آئی تو ان کے اکثر ووٹرز کا یہ خیال تھا کہ اب حالات جوں کے توں نہیں رہیں گے اور آخر کار ملکی نظام پہلے سے بہتر ہو کر رہے گا۔ 2013ء کے انتخابات میں بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ تحریک انصاف جیت جائے گی مگر ایسا نہ ہو سکا۔ الیکشن کی رات نواز شریف کی ’وکٹری سپیچ‘ نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ 2018ء میں جو کمال نواز شریف نے دکھایا تھا وہی کمال کپتان نے دکھایا اور اچانک میچ کا پانسہ پلٹ دیا۔ بہرحال ہم بہت خوش تھے کہ اب پاکستان کا نظام پہلے سے کچھ نہ کچھ بہتر ہو جائے گا۔

ہمیں اس بات کا احساس تھا کہ بڑی تبدیلی کے لیے تحریک انصاف کے پاس نشستیں کم ہیں پھر بھی عام خیال یہ تھا کہ اس مشکل کے باوجود حسنِ تدبیر سے کام لے کر بعض بڑی مشکلات کو دور کرنے کی جانب قدم اٹھیں گے اور تین سال میں ہم کم از کم سیدھی سمت چل پڑیں گے۔ جب تحریک انصاف نے پہلا بجٹ پیش کیا تو مجھے قدرے ناامیدی ہوئی کے یہ تو کم و بیش وہی ’سٹیٹس کو‘ والا بجٹ ہی ہے۔ اس بجٹ کے بعد میرا یہ خیال تھا کہ اگر ہمارا یہ لیڈر کم سیٹوں کی وجہ سے بہتری نہیں لا سکتا تو اسے نئے الیکشن کا اعلان کر دینا چاہیے اور عوام سے اپیل کرنی چاہیے کہ مجھے زیادہ سیٹیں دیں تاکہ میں دوسری پارٹیوں کے تصفیہ کرنے اور ان کی بعض شرائط ماننے کی بجائے اپنی پارٹی کے بل بوتے پر مسائل حل کر سکوں مگر ایسا نہ ہو سکا۔ اگر عمران خان یہ راستہ اختیار کرتے تو میرا خیال ہے کہ انھیں زیادہ سیکھی مل جاتیں۔

دو سال تک کوئی بہتری نہ آئی اور تیسرا سال بدتر ثابت ہوا اور یہ چوتھا سال بدترین ثابت ہو رہا ہے۔ بنیادی ضروریات کی چیزیں تیزی سے مہنگی ہو رہی ہیں۔ اشیائے خور و نوش کی قیمتیں روز افزوں ہیں۔ ملک کا نظم و ضبط بری طرح رو بہ انحطاط ہے۔ چور یاں، ڈاکے، قتل و غارت، اغوا، جنسی جرائم، رشوت ستانی، بے روزگاری، جہالت، تعصب، فرقہ وارانہ تقسیم، لاقانونیت، غرض ہر برائی ویسے کی ویسے ہے جیسی اس حکومت سے پہلے ہوا کرتی تھی۔ عوام جتنے مایوس آج نظر آرہے ہیں اس سے پہلے کبھی نہ تھے۔ یہ درست ہے کہ کورونا نے دنیا بھر کی اقتصادی حالت کو بری طرح متاثر کیا ہے مگر حالات کا مداوا ہونے کی کوئی صورت تو دکھائی دے۔ پہلے میں بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح یہ سمجھتا تھا کہ 2018ء سے پہلے مختلف پارٹیوں نے جو لوٹ مار کی ہے وہی ملک کی ابتر صورتحال کی ذمہ دار ہے لیکن اب آئی ایم ایف کی شرائط مان کر جس طرح قرضہ لیا جا رہا ہے اور اس سے روز بروز نت نئی مہنگائی بڑھ رہی ہے آخر اس سے کیا حاصل ہوگا؟

آئندہ انتخابات میں ڈیڑھ سال باقی رہ گیا ہے۔ ڈیڑھ سال میں کسی طرح بھی ممکن نہیں لگتا کہ حالات بہتری کا رخ اختیار کریں گے اور نئے الیکشن میں مجھے تو پی ٹی آئی کے جیت جانے کے امکانات نظر نہیں آتے۔ میرے جتنے دوست احباب نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیے تھے ان کا موڈ اس بار بدلا ہوا نظر آ رہا ہے۔ ہوسکتا ہے ان میں سے اکثر لوگ ووٹ ڈالنے نہ جائیں۔ تحریک انصاف سے تو وہ ناامید ہوچکے ہیں لیکن سابقہ تجربات سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ جو خاندانی پارٹیاں کئی کئی بار سر اقتدار آ کر نظام تباہ کر چکی ہیں وہ آئندہ بھی یہی کریں گی۔ میرا تو یہی خیال ہے کہ اس مرتبہ لوگوں کو وسیع پیمانے پر انتخابات کا بائیکاٹ کرنا چاہیے۔ جب تک الیکشن رولز میں بنیادی تبدیلیاں نہیں آتیں یہ تماشا بار بار ہوتا رہے گا۔ الیکشن لڑنا کروڑ پتی نہیں ارب پتی لوگوں تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ جو شخص اتنی بے تحاشا رقم خرچ کرکے الیکشن جیتتا ہے تو کیا وہ جیتنے کے بعد اس سے زیادہ رقم نہیں کمائے گا؟

موجودہ حکومت نے تعلیمی نظام کو بھی پہلے سے زیادہ خراب کر دیا ہے۔ بی اے اور ایم اے کا پرانا نظام بہتر بنانے کی بجائے بی ایس اور ایم ایس کا نیا نظام متعارف کرانے سے خرابیاں پہلے سے زیادہ ہو جائیں گی۔ بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرنے والے بالائی طبقے کے چند بچوں کے مفاد کے لیے سارے نظام کو تبدیل کر دینا ہرگز دانشمندی نہیں ہے۔ میں 60 برسوں سے ملک کے تعلیمی اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لے رہا ہوں کیونکہ اس میں براہِ راست ’ملوث‘ ہوں۔ ہم پرانے نظام تعلیم میں اچھی تبدیلیاں لا کر بہتر نتائج پیدا کر سکتے ہیں مگر نیا نظام متعارف کرا کر اس سے بہتر نتائج حاصل نہیں کر سکتے۔ ایچ ای سی نے اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کے لیے جو طریقے متعارف کرائے ہیں ان کے ذریعے بے دریغ رقم ضائع ہوتی ہے مگر حاصل کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اداروں کے تحقیقی مجلے غیر معیاری ہیں جہاں لوگ رقم خرچ کر کے ریسرچ آرٹیکل چھپاتے ہیں تاکہ ان کے ذریعے اگلے گریڈ حاصل کر سکیں۔ پوسٹ ڈاکٹریٹ جیسی بیکار سکیمیں متعارف کرائی گئی ہیں جن میں نام نہاد ریسرچ سکالرز پر پچاس پچاس لاکھ روپیہ خرچ ہوتا ہے مگر جو لوگ اتنی رقم صرف کرکے واپس آتے ہیں انھوں نے تحقیق میں کونسی جدت اور انفرادیت حاصل کی ہے؟ اس کا کوئی جواب نہیں ملتا۔

پبلک سروس کمیشن میں وہ لوگ ممبر ہیں جو پولیس یا فوج کے ریٹائرڈ افسر ہیں جنھیں اپنے موجودہ عہدوں کے تقاضے ہی معلوم نہیں ہیں۔ جس طرح سلیکشن کی جاتی ہے اس کا سارا مروجہ نظام نظرثانی کا محتاج ہے۔ جامعات میں سلیکشن کا عمومی معیار صرف ترجیحات پر مبنی ہے۔ انٹرویو کے لیے جو مضامین کے ماہرین بلائے جاتے ہیں ان میں سے متعدد لوگ صدرِ شعبہ کے بااعتماد لوگ ہوتے ہیں اور وہ صدورِ شعبہ کی فرمائش پر من و عن عمل کرتے ہیں۔ شعبۂ تعلیم اور سلیکشن میں موجودہ حکومت رتی بھر تبدیلی نہیں لا سکی۔ تاسف کی بات یہ ہے کہ ملک میں یا تو مختلف شعبوں کے ماہرین بالکل ناپید ہو چکے ہیں یا اہلِ غرض انھیں بالکل نظر انداز کروا رہے ہیں۔ جو شخص ذاتی مفادات کو ترک کرکے قومی خدمت کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہے وہ اپنی تحقیر برداشت نہیں کر سکتا۔ اہلِ غرض کی یہ نشانی ہے کہ وہ ذلت اور توہین کی نحوستیں برداشت کر لیتے ہیں۔

غرض ملک کا سارا نظام جس میں اقتصادی ڈھانچا، انتظامی امور، تعلیم، صحت اور عدلیہ سب کچھ شامل ہے ابتر حالت میں ہے۔ کپتان صاحب کو چاہیے کہ اپوزیشن پارٹیوں سے مذاکرات کرکے مل جل کر حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کریں (خواہ کچھ لوگوں کو این آر او دینا پڑے)۔ سب لوگ نیک نیتی سے باہمی مشاورت کے ذریعے آئندہ کا لائحہ عمل طے کریں۔ اس کے لیے خواہ کسی پسِ پردہ طاقت سے بھی مدد لینے پڑے تو گریز نہ کریں– اور ان پسِ پردہ ’جناتی طاقتوں‘ کو بھی ملک کے حالات خصوصاً اقتصادیات کو مضبوط کرنے کے لیے نیک نیتی سے مدد کرنی چاہیے۔ کٹھ پتلیوں کا ناچ دیکھ کر خوش ہونے کی بجائے اپنا وزن ملکی مفاد کے پلڑے میں ڈالنا چاہیے۔ یہ بوڑھا جس نے تحریک پاکستان کے جذبے کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رکھا ہے اور نہ جانے کیا کیا امید لے کر سرحد پار سے اپنے بزرگوں کے ساتھ پاکستان آیا تھا ان حالات کو دیکھ کر یہ سوچنے لگا ہے کہ اس کی زندگی میں ہمارا پیارا ملک کبھی سدھر بھی سکے گا؟