خوف  اور وسوسوں پر کیسے قابو پائیں؟ 

خوف ، لاعلمی کی پیداوار ہے- لاعلمی وسوسوں کو جنم دیتی ھے- حالات کا مکمل ادراک ہو، مشکلات سے نمٹنے کی منصوبہ بندی اور تیّاری ہو تو پھر خوف نہیں پر اعتمادی ٹھہرتی ہے-

سوچ کی وسعت ، خوف پر قابو پانے میں مدد دیتی ہے اور اڑان کی ہمت عطا کرتی ھے-سوچ کی وسعت علم کی مرہون منت ہے-

 انسانی ذھن وہی raw material استعمال کرتا ہے جو ہم اسے اپنے مشاھدے یا مطالعہ سے   مہیا کرتے ہے- سوچ کی اڑان انہیں دو ستونوں کے اوپر کھڑی ہوتی ہے- اور تمام  واقعات کی پراسیسنگ بھی ہم اسی محدود علم اور مشاہدے کی بنیاد پر کرتے ہیں-   ہر شخص کی سوچ  مختلف حالات کی پیداوار ہے اسی لئے ہم   ایک ہی واقع  کو ہم مختلف انداز سے تشریح کرتے ہیں- ھم ھزار کوشش کر لیں اپنی  سوچ  سے آگے پرواز نہیں کر سکتے-

علم اور مشاھدہ محدود اور سطحی  ھو تو سوچ  ایک دائرے میں گھومتی رھتی ہے-

  تنگ نظری  ، کال کوٹھری کی طرح ہے- جیسے ہی آپ چلنا شروع کرتے ہیں، سامنے دیوار آ جاتی ہے- وسیع سوچ کھلے آسمان کی طرح ہے اور سوچ کی کشادگی  ، مطالعہ اور مشاھدہ کی مرہون منت ہے –  جیسے جیسے سوچ وسیع ہوتی جائے گی، تخیل پرواز بہتر ہوتی جائے گی- سوچ میں ایسی معجزاتی  تبدیلیاں رونما ہونگی کہ آپ خود بھی حیران رہ جائیں گے- سوچ محدود ہو لیکن پرواز کی امنگ ہو تو، انسان کٹے  پروں والے پرندے کی طرح  پھڑا پھڑا کر نیچے گر جاتا ہے-بار بار محمل اور بے ربط راگ الاپتا ہے-  غصہ، مایوسی، شخصی لالچ ، تنگ نظری کی پیداوار ہیں 

ایک ہی چیز، واقع اور مسئلے کے تجزیے کے مختلف انداز ہو سکتے ہیں – یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اسے کس عدسے سے دیکھ رہے ہیں- 

مثلا، فلسطین- اسرائیل جنگ؛ اس کو تاریخی پس منظر کے حوالے سے تجزیہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ مسئلہ کیوں پس پشت ڈال دیا گیا اور ۲۰۰۷ کے بعد وقفے وقفے سے کیوں ابھرتا رھا اور پھر پردہ سکرین سے غائب ہو تا رھا- اس کو مشرق وسطی کے علاقائی تنازع کے حوالے سے پرکھا جا سکتا ہے، اس کو انسانی حقوق کی پامالی کے حوالے سے دیکھا جا سکتا ہے، اس کو صیہونیت کی دست درازی   کے حوالے سے دیکھ سکتے ہیں، اس کو جیو پالیٹیکس  اور جیو اکنامکس کے حوالے سے دیکھ سکتے ہیں- اس کو نان سٹیٹ ایکٹر کے عالمی سیاست میں کردار کے حوالے سے دیکھ سکتے ہیں -ان تمام عوامل کو ملا کے تجزیہ کر سکتے ہیں-  یہ ھم پر منحصر ہے کہ ہم تجزیہ کس عینک کو لگا کر کر رھے ہیں-تحقیق  دراصل علم اور جستجو کے درمیان کا معاملہ ھے- جب معاملات کی سمجھ آ نا شروع ہو جائے  تو   کڑیاں خود بخود مل جاتی ہیں- 

تصویریں دیکھنے سے معاملے کی سمجھ نہیں آتی- ساری تصویریں سچ نہیں بولتی- اور آجکل کے دور میں تو بالکل بھی نہیں- سوشل میڈیا عوامی رائے پر اثر انداز ہونے کا آسان ترین اور موثر ذریعہ ہے-