ترکیہ میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات(کل) ہوں گے

6 کروڑ 40لاکھ ووٹرزحق رائے دہی استعمال کریں گے، ترکی کے 81 صوبوں میں انتخابات کیلئے 26 پارٹیاں مدمقابل ہیں ، رواں انتخابات میں 6 ملین نئے ووٹرز شامل ہوئے ، 3 سے 4 ملین ووٹرز بیرون ممالک سے ووٹ ڈال سکیں گے
راولپنڈی (نیوز ڈیسک ) ترکیہ میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات(کل) اتوار کو ہوں گے ، 6 کروڑ 40لاکھ ووٹرزحق رائے دہی استعمال کریں گے۔ رپورٹس کے مطابق ترک ووٹر 14 مئی کو پانچ سال کیلئے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں ملک کے اقتدار کا فیصلہ کریں گے، یہ الیکشن ایک ایسے وقت پر ہو رہے ہیں جب ترکی کو معاشی بدحالی، مہنگائی اور فروری میں آنیوالے شدید زلزلے کا سامنا کرنا پڑا۔ ترکی کے 81 صوبوں میں انتخابات کیلئے 26 پارٹیاں مدمقابل ہیں ، رواں انتخابات میں 6 ملین نئے ووٹرز شامل ہوئے ہیں جبکہ 3۔4 ملین ووٹرز بیرون ممالک سے ووٹ ڈال سکیں گے ۔ ووٹرز 600 ممبران پارلیمنٹ کا انتخاب بھی کریں گے جو کہ 87 اضلاع میں پارٹی کی فہرست کے متناسب نمائندگی سے منتخب ہوتے ہیں۔ صدارتی انتخاب میں موجودہ صدر رجب طیب اردگان کا مقابلہ حزب اختلاف کے رہنما کمال قلیچ داراوغلو سے ہے۔ ترکی کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت رپبلکن پیپلز پارٹی (جمہوریت خلق پارٹی) ہے یہ سیکیولر ترک جمہوریہ کے بانی مصطفی کمال اتاترک کی طرف سے تشکیل دی گئی یہ جماعت ترک قوم پرستی کے نظریے کی وفادار ہے اور اسے سیاست کے مرکز میں بائیں بازو کی جماعت سمجھا جاتا ہے۔ رپبلکن پیپلز پارٹی نے نیشن الائنس نامی اتحاد میں خود کو دیگر قوم پرست اور قدامت پسند قوتوں کے ساتھ نتھی کر دیا ہے، جن کے مشترکہ ووٹ اردگان کی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی (جسے آق پارٹی بھی کہا جاتا ہے )کو شکست دینے کے لیے کافی ہو سکتے ہیں۔ حزب اختلاف کے رہنما کمال قلیچ داراوغلو کو نیشن الائنس نے اپنا صدارتی امیدوار نامزد کیا ہے، وہ حزب اختلاف کی 6 جماعتوں کے اتحاد کے متفقہ امیدوار ہیں۔ وہ نرم لہجے میں گفتگو کرنے والے سابق سرکاری افسر ہیں اور اس لحاظ سے وہ ترکی کے طاقتور صدر اردغان سے بالکل مختلف شخصیت ہیں ، قلیچ داراوغلو ایک انتہائی تجربہ کار سیاست دان ہیں، وہ سال 2002 میں رکنِ پارلیمان منتخب ہوئے تھے۔ سال 2010 میں ری پبلکن پیپلز پارٹیکی قیادت سنبھالنے کے بعد سے وہ کئی انتخابات ہار چکے ہیں، پارٹی کے لیڈر کے طور پر اپنے 13 برسوں میں انہوں نے اپنی پارٹی کو عوام میں مقبول بنانے کے لیے بہت زیادہ کام کیا ہے۔ 74 سالہ کمال قلیچ داراوغلو کے پاس ترکی کے سب سے طاقتور لیڈر رجب طیب کو شکست دینے کا اب تک کا سب سے بڑا موقع ہے۔ دوسری جانب قوم پرستوں کی طرف سے 2018 کے صدارتی انتخابات کے لیے حزب اختلاف کے امیدوار محرم اینجہ اپنی نئی ہوم لینڈ پارٹی کی جانب سے انتخاب لڑ رہے تھے مگر ان کی جانب سے دو روز قبل اچانک دستبرداری کے اعلان نے قلیچ دار اوغلو کی پوزیشن مضبوط کر دی ہے۔ نمایاں عوامی حمایت کے ساتھ دیگر قوم پرست اور بائیں بازو کی قوتوں نے نیشن الائنس سے باہر رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسری طرف بائیں بازو کی جماعتیں صرف پارلیمانی انتخابات میں حصہ لے سکی ہیں، ترکی کی بڑی کرد اقلیت سے تعلق رکھنے والے ممکنہ امیدواروں کو صدارتی دوڑ کے لیے خود کو نامزد کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے اور ان کے پاس صرف قلیچ داراوغلو کی حمایت کا راستہ بچا ہے۔ صدر کے عہدے کیلئے اردگان اے کے (آق) پارٹی کے امیدوار ہیں، یہ پارٹی 2002 سے اقتدار میں ہے، اردگان 2003 میں وزیر اعظم بنے، اور پھر 2018 میں دوبارہ منتخب ہونے سے پہلے 2014 میں صدارتی انتخاب میں کامیابی حاصل کی ، اس بار اگر وہ منتخب ہو جاتے ہیں تو یہ ان کی آخری مدت ہو گی۔ اس سے قبل وہ 1994 سے 1998 تک استنبول کے میئر بھی رہ چکے ہیں۔ آق پارٹی ایک قدامت پسند جماعت ہے، وہ اس وقت انتہائی دائیں بازو کی نیشنلسٹ موومنٹ کے ساتھ اتحاد میں ہے جو قدرے غیر مقبول ہو چکی ہے،تاہم اس غیر مقبول اتحاد کے باوجود اردوگان خود عوام کے ساتھ کسی حد تک سازگار درجہ بندی برقرار رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔

TurkeyElections