بے حِسی کا دور


صدیاں گزریں symbols اور الفاظ کی ایجاد کو لیکن انسانی احساس ، درد، دکھ اور محرومی کی جامع تصویر کشی آج بھی ممکن نہیں- دکھ اور تکلیف کے پیچھے چھپی لرزہ خیز کہانیاں آج بھی اسی طرح مخفی ہیں جیسے صدیاں پہلے تھی- بیسویں صدی میں دستووسکی، ٹالسٹوائے، گیبریل مارکسیز، مچل فوکو، نارمن اینجل ، علامہ محمد اقبال، سعادت حسن منٹو، اور دوسرے بہت بڑے بڑے مصنفین نے اپنی تصانیف اور فلسفے سے اور ھالی ووڈ نے فلموں کے ذریعے احساس کو اجاگر کرنے کی کوششیں کی –
‏IT کی بنیاد ڈیٹا ہے ، احساس نہیں- ڈیٹا انفارمیشن اور علم میں اضافہ کرتا ہے ، احساس نہیں پیدا کرتا – کمپیوٹر نے احساس کو emojis کے ذریعے مقیّد کرنے کی کوشش کی لیکن بات بنی نہیں- Semiotics توجہ ضرور دلواتے ہیں لیکن احساس کو اجاگر نہیں کر سکتے-
انسانوں کی سوچ کو مارکیٹ میں بیچا جا رھا ہے- اور بدلے میں کمپنیاں ہماری سوچ کے مطابق چیزیں بنا کر مارکیٹ سے منافع کما رہے ہیں- جیسے جیسے ڈیٹا ، آرٹیفیشیل انٹیلیجنس کی مدد سے تبدیل ہو کر مختلف شکلیں لیتا جا رھا ویسے ویسے تجارت اور مادی ترقی بڑھتی جا رہی ہے جبکہ انسانی احساس جامد ہو کر اس تغیراتی تبدیلی کو دیکھ رہا ہے- انسانی سوچ کو مادی ترقی کی طرف موڑ دیا گیا ہے – ترقی کی انتہاء اور احساس کے زوال کا یہ فرق ، انسانیت کا سب سے بڑا المیہ بن چُکا ہے-
جیو پالیٹیکس، سیاست، جیو اکنامکس، مارکیٹ اکانومی، میڈیا، سوشل میڈیا، میڈیکل سائنس یہ سب تجارتی محاذ بن چکے ہیں-
کوئی بھی تصویر، ویڈیو چند منتخب لمحات کی نشاندھی ہوتی ہے، مفصل کہانی نہیں- کسی فرد، خاندان، معاشرے یا ریاست کا موجودہ نقشہ اس کے پیچھے دہائیوں پر محیط داستان کی نقش بندی نہیں کر سکتا-
فیصل آباد میں کوکا کولا کے ٹرک کی ویڈیو پر تنقید تو بجا ہے- لیکن غربت ، تعلیم، بنیادی تربیت اور معروضی حالات کو زیر بحث لانا بھی ضروری ہے- خالی پیٹ ،اخلاقیات سمجھ نہیں آتی-
عالمی شہرت یافتہ روسی مصنف ،دستووسکی نے اپنے ناول ” جرم و سزا” میں انیسویں صدی کے سینٹ پیٹرزبرگ شہر کی سماجی تصویر پیش کی ہے، جس میں وہ شہری زندگی، غربت و فلاس اور اخلاقی زوال کی تلخ حقیقتوں کو اجاگر کرتا ہے- یہ ناول بہت حوالوں سے پڑھنے لائق ہے”-
غربت ، جرم کرواتی ہے یا جرم والی ذہنیت غریب کر دیتی ہے- یہ ابھی تک ایک نفسیاتی معمہ ہے- لیکن امیر ہوتے ہوئے قومی دولت لوٹنا بلکل بھی نفسیاتی معمہ نہیں – یہ سریعًا لوٹ مار ھے-
مشہور سیاسی فلاسفر مورگنتھاؤ کا کہنا ہے کہ انسان بنیادی طور پر خود غرض ہے اس لئے ہر صورت اپنے وسائل اور طاقت بڑھانے کے لئے کوشاں رہتا ہے اور الگورتھم اس مرض کو تقویت بخش رھے ہیں –
"میں نکل جاؤں باقی بیشک رہ جائیں”- خود غرض معاشروں پائی جانے والی یہ سوچ ، لالچ اور عدم تحفظ کی پیداوار ہے- کمپیوٹر اور موبائل کی دنیا لالچ اور عدم تحفظ کو پروان چڑھا رہی ھےاور یہ سوچ معاشرے میں افراتفری کا سبب ہے –
-۰-۰-
ڈاکٹر عتیق الرحمان