بھیک مانگنا ایک پیشہ بن چکا ھے
تحریر:ڈاکٹر عتیق الرحمان
پاکستان میں بھیک مانگنا یہ ایک پیشہ بن چکا ہے اور اس سے جڑے عناصر مافیاز کی شکل اختیار کرچکے ہیں – اور مافیاز نے بڑے بڑے شہروں میں اپنے اپنے علاقے و شاہرایں و چوک چورائے مقرر کررکھے ہیں ایک کے علاقے میں دوسرے علاقے کا بھکاری بھیک نہیں مانگ سکتا- جنکے پاس معذور بھکاریوں کی تعداد زیادہ ہو انہیں کامیاب سمجھا جاتا ہے- راولپنڈی میں پیشہ ور بھکاری کچہری چوک ، مال روڈ ، سواں پل، روات ٹی چوک ،مری روڈ ،صادق آباد، باڑہ بازار، کمرشل مارکیٹ، راجہ بازار اور ایکسپریس ھائی وے پر بھیک مانگتے دکھائی دیتے ہیں- پیشہ ور بھکاریوں یہ گروہ مافیاز کو اگر پشت پناھی حاصل نہیں تو پھر کیسے یہ فعال ہیں؟ – مافیاز کے عناصر مخصوص پوائنٹس پر ان بھکاریوں کو چھوڑ کر دن کے مختلف اوقات میں ان کی نگرانی کرتے ہیں اور اندھیرا پھیل جانے کے بعد انھیں پک کرکے جمع ہونے والی بھیک وصول کرکے انھیں انکا حصہ دیکرڈیروں پر پہنچا دیتے ہیں – بھکاریوں کی دو شفٹیں بنا کر ان سے بھیک منگوائی جاتی ہے- ایک شفٹ دن کو اور دوسری رات بارہ بجے تک کام کرتی ہے –
بھیک مانگنے والوں کو مختلف روپ ہیں جنہیں سوچ بچار کے بعد تربتیب دیا جاتا ہے- کوشش کی جاتی ہے کہ بھیک دینے والوں کی مختلف حلیوں اور جملوں سے بھیک دینے کے لئے مائل کیا جائے- اس کام کے لئے ذہنی طور پر معذور افراد، جسمانی معذوری، ہیجڑے، بزرگ، عورتیں اور بچوں کو استعمال کیا جاتا ھے۔