بمطابق عمر

ھمارے معاشرے میں انسان کو اس کی عمر کے مطابق زندہ سمجھا جاتا ھے۔تیس پر بھر پور ، چالیس پر سمجھدار ، پچاس پر بڑی عمر والا اور ساٹھ پر بزرگ لکھا اور پڑھا جاتا ھے۔ھمارا سماجی رویہ یہ تجویز کرتا ھے کہ پچاس کے اوپر عورت اور مرد کو کوئی حق نھی کہ وہ شوخ اور چنچل نظر آئیں۔ رھن سہن اور کپڑوں کے چناؤ میں خیال رکھنا ھوتا ھے چست نہ ھوں مبادا کہیں سے جنبش ادا باھر نہ نکل جائے۔ پچاس کے بعد میوزک اور ڈانس سے لطف اندوز ھونا گناہ کے ذمرے میں آتا ھے۔ گول گپے، رس گلے ، پزا ، پراٹھے، سپورٹس کار ، پتنگیں، سیٹیاں تو شودہ پن تصور ھوتا ھے۔

بھائی عمر بڑھی ھے ، سانس نھی نکلی اور زبان کا ذائقہ بھی برقرار ھے – جزبات کا کیا کریں وہ بھی ابھی زندہ ہیں تو پرھیز کس چکر میں۔ اور ویسے بھی ذھنی خرافات ( جزبات)اور زبان کا ذائقہ دو ایسی عادات ھیں جو عمر کے ساتھ مضبوط ھوتی ہیں ، تو ان سے جان چھڑانے کے لئے بھی جتنے عرصے میں وہ بنی ھیں ، کم از کم اس سے آدھا وقت تو دو-

جوانی تو ساری روزی اور روٹی کمانے ، بچوں کی تعلیم اور تربیت میں گزر گئی۔ سگریٹ نوجوانی کے دنوں کی وہ واحد عادت ھے ، جسے ھم چھپ چھپ کے ساتھ لے کر بڑھاپے میں داخل ھوئے ۔ باقی ساری حسرتیں تو ھم نے بڑھتی عمر کے لئے بچا کے رکھ چھوڑیں ۔ اب آپ یھ اطلاع دے ر ھے ہیں کہ ھم بزرگ ھو گئے ہیں۔فلاں چیز کھا سکتے ہیں ، فلاں نھیں۔ یہ کر سکتے ہیں وہ نھیں۔

ارے یار اپنے مشوروں کی ترتیب ھی ٹھیک کر لو۔ جب جوان تھے تو سننے کو ملتا تھا ، پڑھ لو، کام کرو ، پیسے کماؤ ، مزے کرنے کے لئے ساری عمر پڑی ھے ۔ اب جب کما کے ھٹ لئے تو سنایا جا رھا ھے کہ اپ سائیڈ پر ھو جائیں ، آپ کے مزے کی عمر گزر گئی ھے۔

عجیب لوگ ھو بھائی ۔

ادھر مغرب میں ساٹھ کی عمر میں باقاعدہ چھٹی یا ساتویں دفع دولہا بننے کا اھتمام کیا جاتا ھے جس میں آپ کے پوتے پوتیوں سمیت پرانی دلھنیں بھی خوشی خوشی نہ صرف شریک ھوتی ہیں بلکہ مبارک باد بھی دیتے ھیں اور ادھرھمارے ھاں ساٹھ کے بعد باقاعدہ توقع کی جاتی ھے کہ بندہ مردہ نھی تو کم از کم بیمار تو ضرور نظر آئے۔ اور دکھائی دے تو صرف مسجد یا ھسپتال میں ۔ سیروتفریح ، کھانا پینا، ھلے گلے پر صرف ۹۰ کی دھائی میں پیدا ھونے والے نوجوانوں کا حق ھے۔ تیس سے کم والوں کو ھر خرافات کے لئے موزوں سمجھا جاتا ھے حالانکہ تجربے کی رو سے یہ حق بزرگوں کا بنتا ھے۔

بوڑھا ھونے میں باقاعدہ پچاس ، ساٹھ یا کہیں کہیں ستر سال لگتے ہیں تب جا کر بندہ یا بندی بزرگ ھوتاھے۔ یھی وہ عمر ھے جسے تجربہ کار کہتے ہیں بلکہ کچھ بزرگ تو باقاعدہ فنکار ھوتے ہیں۔ اتنی محنت کیا اس لئے کی جاتی ھے کہ جب لطف اٹھانے کی باری آئے تو یہ کھ کر لائن سے باھر دھکیل دیا جائے کہ دنیا کیا کہے گے؟۔ کلنٹن میرا پسندیدہ صدر ھے ، جانتے ھو کیوں ۔ جی بالکل اسی لئے ۔ صاف و شفاف سوچ کا مالک، کوئی ابہام نھی۔ ذھن بنا لیا تو بس ، کر کے رھے گا، گلوبل آرڈر گیا بھاڑ میں ۔ مشرق کے لیڈروں میں بس یھی کمی ھے کہ سارا عرصہ ڈرتے رھتے ہیں اور پھر اگلا الیکشن سر پر آ جاتا ھے۔ ویسے بھی کہا جاتا کہ امریکی اب بڑی عمر کا صدر ھی چنتے ہیں کم از کم شریف تو ھوتا ھے۔ اوباما کی گارنٹی مشعل اوباما نے دی تھی اور اس عظیم عورت نے آخر تک اپنے وعدے کو نبھایا۔ ھیلری کلنٹن کو مشعل اوباما کی درخواست پر وزیر خارجہ رکھا گیا تاکہ گھریلو ٹوٹکے لینے میں آسانی رھے۔

بھائی جب ھر جاب کے لئے تجربہ لکھتے ھو تو ، انجوائے کے لئے بھی تجربے کو ھی ترجیح دو ناں۔

دنیا میں سوائے مارک زوکر برگ کے سارے امیر ترین لوگ برزگی کی حد کے یا تو قریب ہیں یا پار کر چکے ہیں۔ آپ تمام نوجوان ان بزرگوں کی دولت پر عیش او آرام کر رھے ھو اور ان کے لئے یہ بورڈ لگا رکھا ھے کہ پچاس سے اوپر داخلہ منع ھے۔ ایسا کیسے چلے گا بھائی، سارا پیسہ اور تجربہ تو بڑی عمر والوں کے پاس ھے۔ تو شرارتیں بھی انھیں کرنے دو نا۔

عتیق الر حمان