اھل شہادت، محسنین اور اھل جمال
جمال جعفری
بچوں کی کہانیوں میں مجھے جرات اور قربانی کا نشان ملا اور لڑکوں کی کتابوں سے مجھے حکمت اور خدمت کا پتا چلا- پہلے گروہ کے لوگ شہید کہلاتے ہیں اور دوسرے گروہ میں جو لوگ شامل ہیں انہیں محسنین کہا جاتا ھے-اھل شہادت اور اھل احسان میں فرق صرف اتنا ھے کہ شہید دوسروں کے لئے جان دیتا ھے اور محسن دوسروں کے لئے زندہ رھتا ھے- ایک کا صدقہ جان ہے تو دوسرے کا تحفہ زندگی- ایک سے ممکن وجود میں آتا ہے اور دوسرے سے اس وجود کو توانائی ملتی ھے۔انکے علاوہ ایک تیسرا گروہ بھی ہوتا ھے جو اس توانا وجود کو تا بندگی بخشتا ھے۔جو لوگ اس آخری گروہ میں شامل ہوتے ہیں انہیں اہل جمال کہتے ہیں ۔اہل جمال کی پہچان یہ ھے کہ یہ لوگ مسجد قرطبہ بھی تعمیر کرتے ہیں اور تحریر بھی ۔یہ آل حکم کی طرح بادشاہ بھی ہوتے ہیں اور اقبال کی طرح درویش بھی ۔انہیں تخلیق حسن پر مامور کیا جاتا ھے ۔نثر ہو کہ شعر،نقش ہو کہ نغمہ ،رنگ ہو کہ خشت و خون جگر سے اسے یوں تمام کرتے ہیں کہ جو نظر انکی تخلیق پر پڑتی ھے وہ روشن ہو جاتی ھے۔اگر انکی تخلیق میں حسن صورت ھے تو خود انکی اپنی ذات میں بھی ایک حسن ہوتا ھے جسے حسن سیرت کہتے ہیں۔حسن کی دولت اہل جمال کو اتنی وافر ملتی ھے کہ دوسروں میں تقسیم کرتے رہیتے ہیں ۔یہ تقسیم انکی زندگی کے بعد بھی جاری رہیتی ہے اور اسکی بدولت بدی اور بدنما ہی کو پھلنے پھولنے کا موقع ھی نہیں ملتا۔
زندگی کو ایک گروہ نے ممکن بنایا دوسرے نے توانا اور تیسرے نے تابندہ۔جہاں یہ تینوں گروہ موجود ہوں وہاں زندگی موت کی دسترس سے محفوظ ہو جاتی ھے اور جس ملک یا عہد کو یہ گروہ میسر نہ آئیں اسے موت سے پہلے بھی کئی بار مرنا پڑتا ھے جس سرحد کو اہل شہادت میسر نہ آئیں وہ مٹ جاتی ھے۔جس آبادی میں اہل احسان نہ ہوں اسے خانہ جنگی اور خانہ بربادی کا سامنا کرنا پڑتا ھے۔جس تمدن کو اہل جمال کو خدمات حاصل نہ ہوں وہ خوشنما اور دیرپا نہیں ہوتا۔