انسانی زندگی کے تین بڑے المیے

 ایلکس ڈی  توکیول کی کتاب ” امریکہ میں جمہوریت”-  کا ایک پر مغز معقولہ ہے کہ ، ” انسانی زندگی کے تین بڑے المیے ہیں، موت، بیماری اور شک”- موت اور بیمارت تو قدرت کی طرف سے آتی ہے- شک انسان کی اپنی محنت کا ثمر ہے- اور جہاں سے شک گھس  جائے ، وہاں سب سے پہلے اعتماد اور پھر  محبت اور امن روٹھ جاتا ہے- 

ہم خواہ مخواہ  چیزوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں- کام کرنے کا وقت ہو تو دھیان دوسری طرف کر لیتے ہیں -جب غلطی کا احساس ہوتا ہے وقت نکل چکا ہوتا ہے-  پھر ردعمل والی کاروئی شروع ہو جاتی ہے- سیلاب ، ڈینگی، دہشت گردی ، بجلی، پانی، گندم، چینی کا بحران کوئی مثال سامنے رکھ لیں – ہم نے ان سارے  مسائل کے ساتھ ایک ہی طریقہ برتا  –  کوئی تجزیہ نہیں ، تیاّری نہیں، بروقت کاروائی نہیں اور نقصان ہو جانے کے بعد بھی کوئی سبق نہیں سیکھا- ہ میں تبدیل ہونے کی کوئی چاہ نہیں اور شاید اہلیت بھی نہیں  -واقعات کے ظہوز پزیر ہو جانے کے بعد حجّت کے طور پر رسمی  کاروائیاں ؛ نوٹس، رپورٹ، انکوائری، افسوس اور پھر اگلے واقعے کا انتظار-

مصیبتیں ایسے شکار کو ڈھونڈھتی پھرتی ہیں جس کے ارد گرد سوچ سمجھ اور منصوبہ بندی کی کوئی دیوار نہ ہو- جو ہر طرف سے vulnerable ہو

 تئس برس سے زائد عرصہ ہو گیا ہے دہشت گردی کی جنگ لڑتے ہوئے- آج تک سیاسی اتفاق رائے پیدا نہیں ہو سکا کہ اپریشن کرنا ہے یا نہیں- 

 ۲۰۰۸  میں جب اپریشن شروع ہوئے تو جمہوری حکومتوں کے ادوار تھے-  پہلے فوجی چیک پوسٹوں پر حملے شروع ہوئے- پھر پولیس ، لیویز اور ایف سی کو نشانہ بنایا گیا- مزہبی سیاسی جماعتیں اور دوسری سیاسی قیادت ، سوائے پیپلز پارٹی اور اے این پی کے کسی نے  ملٹری اپریشن کی حمایت نہیں کی- قوم کو شکوک وشبہات میں مبتلا کر کے اپنی ہی سیکورٹی فورسز کو کوسنا شروع کر دیا- دہشت گردوں نے اس موقع کا فائدہ اٹھایا- جی ایچ کیو، انٹیلجنس ایجنسیوں کے دفاتر، تھانے، کچہریاں، سینئر فوجی اور پولیس آفیسرز، سیاستدان، صحافی،سب کو نشانہ بنایا-  میڈیا دانستہ یا نادانستہ دہشت گردی فریمنگ سے شکوک کو ابھارتا رھا-افغانستان، امریکہ اور بھارتی میڈیا میٹافور کا استعمال کر کے پاکستانی میڈیا کے ذریعے عوامی رائے پر ایسا اثرانداز ہوا کہ  قوم گھمسان کے معرکے میں بھی شش وپنج  کا شکار نظر آئی – شک  کو بڑھاوا دینے کے لئے صرف چند الفاظ ہی کافی ہوتے ہیں- مذہبی مقامات، مذہبی اجتماع ، مسجدیں، چرچ، ہوٹل، سبزی منڈی، بازار، غیر ملکی کرکٹ ٹیم ، کھیل کے میدان ، بچوں کے  سکول ، یونیورسٹیاں، فوج، پولیس کے ٹریننگ سنٹرز، ہر چیز کو ٹارگٹ کیا گیا- ہر طرف عدّم تحفظ پھیل گیا؛ کرکٹ گئی، سرمایہ دار بھاگ گئے، کاروبار ٹھپ ہو گئے، ڈر خوف ہر طرف پھیل گیا، اور نہیں گیا تو ہمارا شک – لگ بھگ تیس ہزار پاکستانی، بشمول  سیکورٹی اہلکار  شہد ہوئے اور سترّ ہزار سے زائد شدید زخمی ہوئے- ان ایک لاکھ گھرانوں کی کہانیوں کو ٹٹولیں تو ہمیں احساس ہو گا کہ دہشت گردی نے کیا قیامت برپا کی ہے-اور صورتحال یہ ہے کہ کچھ عناصر کو آج بھی دہشت گردی کی جنگ میں ابہام نظر آتا ہے – 

پاکستان نے بڑی قربانیاں دے کر  امن کے قریب پہنچے ہیں – فاٹا جو کہ لا قانونیت کی اماجگاہ بن چکا تھا اس  کو ملکی دھارے میں لے کر آئے – کراچی میں  کاروباری سرگرمیاں رواں دواں ہیں  بلوچستان میں بھارتی nexus کو نکیل ڈال دی گئی ہے- ایف اے ٹی ایف سے نام نکل چکاہے- بچے کچھے دہشت گرد اب  دوبارہ سر اٹھا رہے ہیں- بیرونی طاقتیں، مقامی سہولت کاروں کے ساتھ مل کر  افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہی میں –  ان کو اور  ان کا ساتھ دینے والوں کو ختم کرنا ضروری ھے- یہ دہشت گرد ، پیشہ ور قاتل ہیں- ان کی پشت پناہی کرنے والے پاکستان کے دشمن ہیں- قوم متحد ہو گی تو ان کے حوصلے پست ہونگے- 

خطرے کا احساس اور اسے حل کرنے کے لائحہ عمل میں سیاسی اور عوامی تعاون ضروری امر ہے- 

۰-۰-۰-۰-

ڈاکٹر عتیق الرحمان