انرجی کے شعبے میں 2646 ارب کا گردشی قرضہ ملکی معاشی بحران کا اصل سبب – جو کہ اب معاشرتی بحران کی شکل اختیار کر چکا ھے
بجلی اور گیس کے شعبوں سے وابستہ اداروں کی نا اھلی کی سزا پوری قوم بھگت رہی ھے-
بجلی اور گیس کی پیداوار اور مانگ میں بڑھتا ھوا تناسب ، بجلی کے بڑھتے ہوئے نرخ ، موسمیاتی تبدیلیوں سے درجہ حرارت میں زیادتی ، توانائی کے شعبے میں حکومتوں کی انتظامی پالیسی اور ویژن کا فقدان ، ایس ایس جی سی اور ایس این جی پی ایل کی اجارہ داری ،نجی شعبے کو مواقع کی عدم فراھمی، پانی کی کمی ، پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی نااھلی، کے- الیکٹرک کے ذمے قرضوں کی عدم ادائیگی گردشی قرضوں کی بڑی وجوھات ہیں – اور یہی قرضہ پاکستانی کی معیشت پر اضافی بوجھ ہے-
توانائی کے شعبے میں گردشی قرضوں کا حکم 2646ارب روپے تک پہنچ چکاہے – پاکستان کا توانائی کا گذشتہ 13 برسوں سے گردشی قرضوں تلے دبا ہوا ہے۔ 2008 میں ان قرضوں کا حجم ساڑھے چھ ہزار ارب روپے تھا، جو 2013 میں بڑھ کر ساڑھے تیرہ ہزار ارب روپے تک جا پہنچا تھا۔جون 2018 میں توانائی کے شعبے کا گردشی قرضہ 1148 ارب روپے تھا جو کہ نومبر 2020 میں بڑھ کر 2306 ارب تک جا پہنچا۔ یہ قرضہ اس وقت 2646 ارب روپے تک پہنچ چکا ھے- فنانشل سال ۲۳ میں ، پاور جنریشن کی مد میں اضافہ ، پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی نا اھلی، وصو لیوں کی مد میں متوقع ھدف سے کم وصولی، کے- الیکٹرک کے ذمے قرضے کی ادائیگی کل ملا کر سرکلر 440 ارب کا اضافہ ھوا-
ملک میں توانائی کی ضروریات کا 31 فیصد گیس سے پورا کیا جاتا ہے جو ملکی پیداوار اور درآمدی گیس پر مشتمل ہے۔پاکستان میں گیس کی کمی کی وجوہات میں اس کی ملکی پیداوار میں مسلسل ہونے والی کمی کے ساتھ عالمی منڈی میں گیس کی قیمت میں اضافہ ہے۔گیس کے شعبے کا گردشی قرضہ گزشتہ تین سال میں 350 ارب روپے سے 650 ارب روپے ہو گیا۔
ماھرین کے مطابق ملک میں روزانہ چھ ارب کیوبک فیٹ گیس کی طلب ہے۔اس میں سے 3.5 ارب کیوبک فٹ گیس مقامی گیس فیلڈز میں پیدا ہوتی ہے تو اسی طرح درآمدی گیس یعنی ایل این جی کے دو ٹرمینلز پر 600 ایم ایم سی ایف روزانہ کی استعداد ہے۔ گیس کے ذخائر موجود ھونے کے باوجود بلوچستان میں ان ذخائر سے استفادہ حاصل کرنے کی راہ میں لاء اینڈ آرڈر کے مسائل حائل ہیں –