استحکامِ افراتفری

جس طرح زمیں سورج کے گرد چکر لگا رہی ہے اور لگاتی جا رہی ھے، اسی طرح ہم افراتفری  اور ابتر حالات کے گرد  ، سردائی پی کر، اندھا دھند دھمال ڈالتے جا رہے ہیں- 

جغرافیائی لحاظ سے کیونکہ اسلام آباد زلزلے کی فالٹ لائن کے اوپر اور فیض آباد کے قریب ہے توسیاسی اکابرین  کے مطابق، اس خطرناک صورت حال کا واحد حل  ، جڑواں شہروں میں انتظامی ابتری ھے- 

ملا جُلا کے  ، دارلخلافہ پر پچھلے چند   برسوں میں ہمارے محمود غزنویوں نے  پچاس کے قریب چھوٹے بڑے  حملے کئے ہیں-

 گوورننس  ، عوامی مزاج کا ردّعمل ہ ھے-  یعنی  یہ دونوں mutually exclusive ہیں-باہر سے کچھ نہیں آتا- ہم ایک مکمل extractive سسٹم میں بند ہیں- اسی لئے ملک میں  صرف افراتفری کو استحکام حاصل ہے-

ملک میں سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ھے اور روزانہ ۸۰% خبریں  عدلیہ کے حوالے سے  آتی  ہیں- یہ اچھی بات ہے ، بڑے مسئلے کو درگزر کریں گے تو ہی بات آگے بڑھے گی- 

بے ڈھنگی حکمرانی، بھی اب ایک فن بن چُکا ھے-عوام  اس تکنیکی صلاحیت سے بہت لطف اندوز ہوتے ہیں-

کرکٹ ورلڈ کپ ہارنے کے بعد ہمیں لگا کہ بابر اعظم کی کپتانی میں نقص تھا- ہم نے کپتان تبدیل کر دیا، پالیسی وہی رکھی 

” سفارش” اور "ھڈ حرامی”- نتیجتا ٹیم نے بھی پرفارمنس وہی رکھی-

شیر شاہ سوری کی بنائی جی ٹی روڈ ایک دفع پھر ایک اہم سیاسی چال کے طور پر استعمال ہو رہی ہے- اب کے یلغار  شمال کی طرف سے ہے-اور حملے کی قیادت گنڈا پور کر رھے ہیں-   

دنیا جب انٹر  نیٹ اور مصنوعی ذھانت کو گلے لگا رھی تھی، ہم جی روڈ کے ستعمال کے تجربات کر رھے تھے- 

یقین کریں کسی کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں- ہر ایک کو اپنے آپ سے خوف کھانا چاہیے، کیونکہ انسان سب سے زیادہ نقصان اپنے آپ کو پہنچاتا ہے- ہم ساری عمر اپنی کوتاہیوں کو دوسروں کے سر تھونے کا جواز ڈھونڈتے رہتے ہیں- حالانکہ امتحانی مرکز میں پرچے ہم نے خود دئے تھے، شادی سے پہلے محبت ہمیں خود ہوئی تھی، اپنا بھانگڑو ہم اپنے ہاتھ سے چنتے ہیں،  ہم جس گورنمنٹ کو گالیاں دیتے ہیں اسے ہم نے نعرے مار مار کر خود جتوایا ہوتا ہے- کوئی ایک بھی ردعمل  ایسا نہیں جو ہمارے اپنے  عمل کا نتیجہ نہ ہو- 

۰-۰- 

ڈاکٹر عتیق الرحمان