آٹا بحران


چینی اور آ ٹے کا بحران پاکستان کے مسلسل بحران ہیں- پچھلی کئی حکومتیں بھی ان دو بحرانوں پر قابو نہ پا سکیں – یہ دونوں بحران مل مالکان، آڑھتی اور سرکاری اھلکاروں کی ملی بھگت سے ذخیرہ اندوزی سب سے بڑی وجہ ہے- سیاسی عدم استحکام، خراب معاشی صورتحال، زرمبادلہ کی کمی،آڑھتی اور ذخیرہ اندوزوں کے لئے منافع کا بہترین ذریعہ ہے-
اس سال سیلاب سے گندم کی فصل خراب ہوجانے اور بروقت درآمدات نہ ہونے کے باعث گندم ذخائر میں کمی آنے کے باعث آٹے کا بحران شدت اختیار کرگیا ہے۔
ڈالر، سونا اور آٹا کی خریدوفروخت پس پردہ مافیا سرکاری اہلکاروں کی سر پرستی میں متحرک ہیں-
یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کے لیے  اپنے بچوں کو روٹی کھلانا مشکل ہوگیا، اس لیے بیشتر گھرانوں نے چاول پر گزارہ کرنا شروع کردیا ہے۔ وہ ٹوٹا چاول150روپے فی کلوخرید کر اپنے بچوں کو کھلا رہے ہیں۔ڈھائی نمبر آٹا 130روپے، فائن آٹا 150روپے اور چکی آٹا 160روپے فی کلو بک رہا ہے۔
دکانداروں کا کہنا ہے کہ اگر گندم کی قیمت اسی طرح بڑھتی رہی تو آٹے کی قیمت مزید 10 سے 20 روپے فی کلو تک بڑھ جائے گی-
کراچی کے کئی علاقوں میں گندم مہنگی ہونے اور گیس کی قلت کے باعث روٹی 25 روپے اور پراٹھا 45 روپے کا کردیا گیا ہے۔
اس حوالے سے نیوکراچی میں آٹا خریدنے والی خاتون شازیہ نے بتایا کہ یوٹیلٹی اسٹورز پر دس کلو آٹا نہیں مل رہا، جو آٹا آتا ہے وہ بھی نہیں ملتا۔
ایک صارف ذیشان نے بتایا کہ سندھ حکومت کا سستے آٹے کا ٹرک آتا ہے لیکن زیادہ رش کے باعث آٹا فوری ختم ہوجاتا ہے۔اب غریب آدمی اپنی روزی کمائے یا آٹے کے لیے لائن لگائے۔
ایک خاتون نوشین نے بتایا کہ ہم آٹا خرید نہیں سکتے، اس لیے ٹوٹا چاول 150روپے میں خرید کر آٹے کے متبادل کے طور پر بچوں کا پیٹ بھررہے ہیں۔
پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن سندھ ریجن کے چئیرمین چوہدری عامر نے بتایا کہ ملک کے گندم کے ذخائر میں کمی آرہی ہے۔ اس کی بڑی وجہ خراب معاشی صورتحال،ڈالر کی قلت، سیلاب کے باعث فصل کا تباہ ہونا اور گندم کی درآمد پر پابندی ہے۔اگر گندم فوری درآمد نہ ہوئی تو ہنگامی ذخائر بھی کم ہوجائیں گے۔
آٹا کرائسس پاکستان میں نیا نہیں- بلکہ کچھ بھی نیا نہیں- ۱۴ جنوری ۲۰۲۱ کی ڈان آخبار کی رپورٹ کے مطابق عوام بیس کلو گرام کا آٹا سٹورز پر ۱۱۵۰ خرید رھی تھی – آٹا یوٹیلیٹی سٹور پر میسر نہیں تھا- ۲۰۲۳ میں آٹا کرائسس زیادہ گھمبیر ھو کر آیا ہے- اس سال آٹا کے حصول کے لئے تگ و دو میں اب تک چار افراد بھگدڑ کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں- پچھلے سال آٹے کے بیس کلو گرام تھیلے کی قیمت گیارہ سو روپے تھی جو کہ اب ۳۱۰۰ سو میں مل رھا ہے-
پنجاب حکومت صوبے میں آٹے کے بحران پر قابو پانے میں بری طرح ناکام ہوگئی، سرکاری آٹا مارکیٹ سے غائب جبکہ اوپن مارکیٹ میں 15 کلو کا تھیلا 1900 روپے کا ہو گیا۔
فلورملز ایسوسی ایشن نے آٹے کی قیمت میں کمی کیلئے سرکاری گندم کا کوٹا بڑھانے کا مطالبہ کر دیا، جبکہ مشکلات میں گِھرے شہریوں کا کہنا ہے کہ سرکاری آٹا تو دستیاب ہی نہیں جبکہ اوپن مارکیٹ کا ریٹ دسترس سے باہر ہے۔
آٹا کی کمی آج کا نہیں یہ مسئلہ ۲۰۰۸ سے چلتا آ رھا ھے-پرچون کا کاروبار کرنے والوں کا وعوی ھے کہ ان کو سپلائی باقاعدہ نہیں مل رھی-عمران خان کے دور حکومت میں بھی آٹا نہیں مل رھا تھا اور شدید بحران پیدا ھوا تھا- آج تک کسی نے اس مسئلے پر توجہ نھیں دی کہ یہ ھوتا کیوں ھے-
مارچ دو ھزار بیس میں عمراں خاں کی حکومت کے عین مرکز میں دوبارہ آٹے کا بحران پیدا ھوا –
مختلف شہروں میں آٹے کی قیمت کو پر لگ گئے۔ لاہور میں فی کلو آٹا 160 روپے جبکہ اسلام آباد میں 15 کلو کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت 2300 روپے ہوگئی۔سندھ کے عوام آٹے کی بڑھتی قیمتوں سے پریشان ہیں۔ سانگھڑ میں ایک کلو آٹے کی قیمت 180 روپے تک جا پہنچی۔ حیدرآباد، سکھر، جیکب آباد، گھوٹکی، شہداد پور اور لیاقت پور سمیت کئی شہروں میں مظاہرے کیے گئے۔
بلوچستان میں بھی گندم بحران شدت اختیار کرگیا۔ پشاور میں 20 کلو آٹے کا تھیلہ 2200 سے مہنگا ہو کر 3300 روپے کا ہو گیا۔ فی کلو آٹا 165 روپے کلو فروخت ہونے لگا۔
آج کی میڈیا رپورٹ کے مطابق سندھ کے بعض شہروں میں 100 کلوگرام گندم کی بوری 10 ہزار 700روپے تک جاپہنچی ہے اور عوام الناس فی کلو آٹا 140 روپے تک خریدنے پر مجبور ہیں
مارکیٹ کے ایک بڑے بیوپاری نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ آٹا افغانستان جارہا ہے۔ افغان اضافی قیمت پر آٹے کا اسٹاک خرید رہے ہیں جس سے ملک میں آٹے کی قلت ہورہی ہے- آٹے کاُ زیادہ بحران سندھ میں ہے-
پاکستان فلورملز ایسوسی ایشن کے مرکزی چیئرمین عاصم رضا کا کہنا ہے کہ محکمہ خوراک پنجاب مِلوں کو ضرورت کے مطابق گندم کا اجرا نہیں کر رہا جس کی وجہ سے مارکیٹ میں آٹے کی قِلت ہے۔
فلورملز ایسوسی ایشن نے کہا کہ صرف لاہور میں روزانہ اڑھائی لاکھ آٹے کے تھیلوں کی ڈیمانڈ ہے اور سپلائی ڈیڑھ لاکھ ہےِ، حکومت نے ضرورت کے مطابق گندم کا اجرا نہ کیا تو بحران مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔